اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) افغان طالبان کی ایک سیاسی ٹیم آج پیر 24 اگست کو اسلام آباد پہنچی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس بات کے امکانات انتہائی روشن ہیں کہ اس دورے کے مقاصد پورے ہوں گے۔
پاکستان کا دورہ کرنے والے طالبان کے وفد کی سربراہی طالبان کی سیاسی ٹیم کے سربراہ مُلا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کی طرف سے کیے گئے ایک ٹوئیٹ کے مطابق یہ وفد پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ افغان امن عمل میں ہونے والی حالیہ پیشرفت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کی آمد و رفت اور تجارت میں سہولیات کے امکانات پر بات چیت کرے گا۔
افغان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار اور رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے وفد کے حالیہ دورے کے دوران سب سے اہم معاملہ بین الافغان مذاکرات کی راہ حائل مشکلات دور کرنے پر بات ہو گی: ”ان مذاکرات کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ ہے جو اب تک مکمل نہیں ہوا۔ اس حوالے سے امریکا نے بھی کوشش کی ہے، پاکستان بھی کر رہا ہے اور قطر نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ تاکہ یہ بین الافغان مذاکرات شروع ہو سکیں۔‘‘
افغان طالبان کی سیاسی ٹیم ایک ایسے موقع پر پاکستان آئی ہے جب پاکستان نے طالبان کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں نافذ کی ہیں۔ جمعہ 22 اگست کو پاکستان نے اقوام متحدہ کی طرف سے مختلف گروپوں کے خلاف عائد پابندیوں کے اطلاق کے لیے احکامات کی منظوری دی۔ ان گروپوں میں طالبان بھی شامل ہیں۔ ان پابندیوں میں ان گروپس کے اثاثے منجمد کرنا، فنڈز جمع کرنے پر پابندی، انہیں ہتھیاروں کی فروخت اور سفری پابندیاں شامل ہیں۔
پابندیوں کے اطلاق کے فوری بعد طالبان کے وفد کے اسلام آباد آنے سے کیا کسی پیشرفت کی توقع کی جا سکتی ہے؟ پاکستان کی معروف تجزیہ کار نسیم زہرا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ طالبان کی سیاسی ٹیم کے اس دورے سے قبل یقیناﹰ کوئی بات چیت اور یقین دہانی ہوئی ہو گی جس کے بعد وہ اسلام آباد پہنچے ہیں: ”اس کے بغیر وہ پاکستان نہیں آ سکتے تھے کہ جس نے اس وقت امن عمل کے سب سے بڑے سپورٹر کے طور پر خود کو پوزیشن کیا ہوا ہے۔ اور پاکستان بھی عوامی طور پر اس طرح طالبان کو اپنے ہاں اس طرح نہ بلاتا اگر اسے اس میں کوئی شک شبہ ہوتا کہ بات بنے گی نہیں۔ اس لیے اس بات کا بھرپور امکان ہے کہ طالبان کے وفد کا یہ دورہ یقیناﹰ مثبت پیشرفت کا سبب بنے گا۔‘‘
امریکا اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری کے آخر میں ہونے والے معاہدے کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہونا تھے۔ تاہم مختلف وجوہات کی بنا اس سلسلے کا آغاز نہیں ہو سکا ہے۔ یہ صورتحال واشنگٹن حکومت کے لیے مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہے۔ کابل کا تقاضہ ہے طالبان پہلے ان 22 افغان کمانڈوز کو رہا کریں جو ان کی قید میں ہیں جبکہ طالبان کا مطالبہ ہے کہ ان کے 320 قیدیوں کو رہا کیا جائے تو مختلف افغان جیلوں میں بند ہیں۔
ابتدائی طور پر افغان حکومت کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد بقیہ قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر افغان صدر اشرف غنی نے لویا جرگہ بھی طلب کیا تھا۔ اس جرگہ نے طالبان قیدیوں کی فی الفور رہائی کی توثیق کی تھی تاہم افغان حکومت نے بعد ازاں یہ کہتے ہوئے رہائی کا عمل مؤخر کر دیا تھا کہ طالبان افغان فوجیوں کو رہا کرنے میں تاخیر کر رہے تھے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستان تعطل کو دور کرنے میں کیسے مدد کر سکتا ہے۔ مگر کابل اور واشنگٹن دونوں کی یہ خواہش ہے کہ مذاکرات کا عمل شروع ہو اور افغانستان میں تشدد میں کمی واقع ہو۔
نسیم زہرا کے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ افغان مسئلے کے تمام شریک اب اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ یہ معاملہ جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے: ”جو حالات اس وقت ہیں ان میں ظاہر ہے کہ طالبان یہ چاہ رہے ہیں کہ بات آگے بڑھے، وہ سمجھتے ہیں کہ اب لڑائی اور قتل و غارت کا دور گزر گیا۔ اب کوئی بھی، نہ خطے میں اور نہ امریکا اور جنہوں نے افغانستان کو پراکسی بنایا ہوا تھا وہ سب چاہتے ہیں کہ وہاں اب امن ہو۔‘‘
29 فروری کو قطر میں طے پانے والے امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے طالبان نے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ تو روک دیا ہے تاہم افغان فورسز کے خلاف تقریباﹰ روزانہ کی بنیاد پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقل جنگ بندی امن مذاکرات کا ہی حصہ ہو گی بھلے ان کا جب بھی آغاز ہو۔