افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان نے اپنی عبوری کابینہ میں توسیع کرتے ہوئے نائب وزراء کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فہرست میں بھی کسی ایک خاتون کا نام شامل نہیں۔
طالبان نے اپنی کابینہ کے نائب وزراء کے ناموں کا بھی اعلان کر دیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود طالبان کے ارباب اختیار کی فہرست میں صرف اور صرف مرد شامل ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح انتہا پسند طالبان اپنے سخت گیر موقف کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ نائب وزراء کے ناموں کے اعلان کے ساتھ طالبان نے مردوں کی اجارہ داری کو دوگنا کر دیا ہے۔
طالبان کی طرف سے نائب وزراء کے ناموں کا اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کو خبردار کر چُکی ہے کہ وہ ان کی زیر قیادت حکومت کو ان کے ‘ایکشنز‘ یعنی عمل کی کسوٹی پر پرکھے گی۔ خاص طور سے طالبان حکومت کا خواتین اور اقلیتوں کیساتھ رویہ اس امر کو واضح کرے گا کہ بین الاقوامی برادری انہیں تسلیم کرے گی اور ان کیساتھ تعاون کرے گی یا نہیں؟
اس سلسلے میں افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کا رویہ بھی غیر معمولی حد تک محتاط ہے اور پاکستانی وزیر خارجہ نے گزشتہ روز ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک پہنچنے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ طالبان ایک ‘شمولیتی حکومت‘ قائم کریں گے اور اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔‘‘ شاہ محمود قریشی نے خاص طور سے لڑکیوں اور خواتین کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی جانے کی اجازت دینے پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کی جانب سے کچھ ”مثبت” اقدامات دیکھ رہے ہیں، جس میں معافی کا اعلان اور اکثریتی پشتونوں کے علاوہ دیگر نسلی گروپوں کو شامل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی شامل ہے۔‘‘ انہوں نے کہا یہ بھی کہا تھا کہ اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاہم پاکستانی وزیر خارجہ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ فی الحال طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی جلد بازی کی کوئی ضرورت ہے۔ ان کے بقول پاکستان اس وقت افغانستان میں کیے جانے والے تمام اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی حکومت کی جانب سے کابینہ میں تازہ توسیع کا دفاع کیا ہے۔ منگل کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی کابینہ میں اقلیتی نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جیسا کہ ہزارہ اقلیتی گروپ کے اراکین کو۔ ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ خواتین کو غالباً بعد میں کابینہ میں شامل کیا جا سکے گا۔ طالبان حکومت کے ترجمان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرے۔ مجاہد کا کہنا تھا،” اقوام متحدہ، یورپی ممالک، ایشیائی اور اسلامی ملکوں کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری حکومت کو تسلیم کریں اور ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں۔ اس فیصلے کو روکے رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘
طالبان نے اپنی موجودہ کابینہ کوعبوری طور پر تشکیل دیا ہے ساتھ ہی یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اس میں تبدیلی ممکن ہے۔ لیکن ان کی طرف سے اب تک یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آیا ان کے ملک میں کبھی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔امریکا نے طالبان کے رویے کی تعریف کی
ذبیح اللہ مجاہد سے جب لڑکیوں اور خواتین پر حالیہ پابندیوں کے تناظر میں پوچھا گیا کہ فی الحال چھٹی سے بارہویں جماعت تک کی بچیوں کو اسکول نہ جانے دینے کے فیصلے کے پیچھے کون سے عناصر کار فرما ہیں تو ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ یہ ایک عارضی فیصلہ ہے اور جلد ہی یہ اعلان کر دیا جائے گا کہ یہ لڑکیاں کب سے اسکول جا سکیں گی۔‘‘ لڑکیوں کو جلد اسکول جانے کی اجازت کے امکانات کا مجاہد نے ذکر تو کیا مگر کوئی ٹھوس بات یا وضاحت پیش نہیں کی۔
یاد رہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے لڑکوں نے گزشتہ ویک اینڈ سے دوبارہ اپنی پڑھائی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔