افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں شہری ہوا بازی کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے کابل سے پروازیں دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایک مکتوب بھیجا ہے۔ آریانہ ایئر اور کام ایئر کی بھارت کے لیے پروازیں پندرہ اگست سے بند ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے ماتحت شہری ہوا بازی کے محکمے نے بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف سول ایویشین (ڈی جی سی اے) کو جو خط لکھا ہے، اس کے مطابق طالبان نے افغانستان کی ’کام ایئر‘ اور سرکاری کمپنی ’آریانہ افغان ایئر لائن‘ کی پروازیں کابل اور نئی دہلی کے درمیان دوبارہ شروع کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سلسلے میں جب ڈی جی سی اے کے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا گيا تو انہوں نے اس خط کے موصول ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ چونکہ یہ پالیسی سازی کی بات ہے اس لیے اس پر فیصلہ شہری ہوا بازی کی وزارت کو کرنا ہے۔
پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان اور دنیا کے بیشتر ممالک کے درمیان پروازوں کی آمد و رفت بحال نہیں ہو پائی ہے اور فی الوقت صرف چند پڑوسی ممالک کے درمیان ہی پروازیں جاری ہیں۔ طالبان کی کوشش ہے کہ فضائی آمد و رفت پہلے جنوبی ایشیا میں بحال کی جائے۔
طالبان کی عبوری حکومت میں نقل و حمل اور شہری ہوا بازی کے کارگزار وزیر الحاج حمید اللہ اخون زادہ کی جانب سے بھارتی حکام کو خط موصول ہوا ہے۔ اس خط پر سات ستمبر کی تاریخ درج ہے تاہم بھارت کو یہ حال ہی میں ملا ہے اور اس کا انکشاف 29 ستمبر بدھ کے روز بھارتی میڈیا نے کیا تھا۔
مکتوب میں لکھا ہے،’’اس خط کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان مسافروں کی آمد و رفت کو برقرار رکھنا ہے، جو دونوں ملکوں اور ہماری قومی کیریئرز (آریانا افغان ایئر لائن اور کام ایئر) کے درمیان دستخط شدہ معاہدے کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد معاہدے کے تحت طے شدہ پروازوں کو دوبارہ شروع کرنا ہے، لہذا افغانستان سول ایوی ایشن اتھارٹی آپ سے کمرشل پروازوں کی سہولت دوبارہ سے فراہم کرنے کی درخواست کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا کہ اس سلسلے میں افغانستان کی اسلامی امارت آپ کو ہر طرح کی یقین دہانی کراتی ہے،’’جیسا کہ آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ امریکی فوجیوں نے انخلاء مکمل ہونے سے قبل کابل ایئر پورٹ کو کافی نقصان پہنچایا تھا اور اسے غیر فعال کر دیا تھا۔ ہمارے قطری بھائیوں کی تکنیکی مدد سے ایئر پورٹ ایک بار پھر قابل استعمال ہو گیا ہے اور اس سلسلے میں چھ ستمبر کو ایک نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔‘‘
طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر پندرہ اگست کو قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد سولہ اگست سے اس کی فضائی حدود کو غیر محفوظ قرار دے دیا گیا تھا اور نتیجتا تمام کمرشل فلائٹس بند ہو گئی تھیں۔ تاہم اس کے بعد طالبان قطر کی مدد سے کابل سمیت ملک کے کئی ہوئی اڈوں پر آپریشن دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آریانہ افغان ایئر لائن کی اندرون ملک پروازیں فی الوقت جاری ہیں جبکہ پہلی بین الاقوامی پرواز کا آغاز 13 ستمبر کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہوا تھا، جس کی ابتدا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز نے کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق فی الوقت پاکستان اور ایران سے بین الاقوامی پروازیں باضابطہ طور پر جاری ہیں جبکہ قطر ایئرویز نے بھی کابل سے بعض فلائٹس شروع کی تھیں۔
امریکی اور دیگر بیرونی افواج کے انخلاء کے وقت کابل ایئر پورٹ عالمی توجہ کا مرکز تھا جہاں سے امریکا، یورپ اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک نے وہاں سے شہریوں کو نکالنے کے لیے ایک خاص مہم شروع کر رکھی تھی۔ اس کے لیے جنگی طیاروں کا بھی استعمال کیا گیا۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اب بھی افغانستان میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو ملک سے نکلنا چاہتے ہیں تاہم پروازوں کی قلت کے سبب پھنسے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک بڑی تعداد ایسے افغانوں کی بھی ہے جو پہلے غیر ملکی افواج کے لیے کام کیا کرتے تھے اور اب انہیں اپنے ہی ملک میں خطرات کا سامنا ہے۔
انخلا سے قبل تک کابل ایئر پورٹ ایک مصروف ہوائی اڈہ تھا، جہاں سے متعدد ممالک کے لیے پروازیں اڑا کرتی تھیں۔ بھارت کی سرکاری ایئر لائن ایئر انڈیا اور ایک نجی کمپنی اسپائس جیٹ بھی کابل اور دہلی کے درمیان پروازیں اڑاتے رہے تھے تاہم اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان ایسے تمام رابطے بند ہیں۔
طالبان نے اپنی اسپیشل فورسز کو یہ ہدف دے دیا ہے کہ ملک بھر میں’دولت اسلامیہ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے۔ مستقبل میں داعش کے جنگجو طالبان کے لیے مسلسل درد سر بن سکتے ہیں۔
پاکستانی مبصرین نے بائیس امریکی سینیٹرز کی طرف سے افغانستان میں طالبان کو ملنے والی مدد کے حوالے سے تحقیقات کے مطالبے کو دباؤ بڑھانے کا ایک ہتھکنڈہ اور پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی سازش قرار دیا ہے۔
پاکستان نے طالبان کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ایک طرف تو یہ چین کی خواہش ہے اور دوسری طرف پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔
امریکا کے چوٹی کے فوجی اہلکاروں نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے افغانستان میں جنگ ختم کرنے اور فوج کے مکمل انخلا کا تاہم دفاع بھی کیا۔ جنرل مارک ملی نے متنبہ کیا کہ دہشت گرد گروپ منظم ہوکرامریکا پر حملہ کرسکتا ہے۔
مبصرین اس پر منقسم ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ جبکہ قطر اور پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان سے مکالمت لازمی ہے۔
افغانستان میں زعفران کی فصلوں میں کام کرنے والی ہزاروں محنت کش خواتین طالبان کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتی ہیں۔