کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں طالبان حکومت نے پیر کے روز وزارت میں تیسری مرتبہ توسیع کی۔ متعدد افراد کو نائب وزراء کے عہدوں پر فائز کیا گیا ہے تاہم اس مرتبہ بھی کسی وزارت میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔
طالبان کے اعلی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ عبوری حکومت میں تیسری توسیع کے دوران 38 نئے وزراء کو شامل کیا گیا ہے۔ ان سب کا تعلق طالبان سے ہے اور اس میں اقلیتی گروپوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔
نئی توسیع میں بعض انسانی تنظیموں کے سربراہوں کی تقرری بھی عمل میں آئی ہے۔
طالبان حکومت میں یہ نئی توسیع اس بات کا تازہ ترین اشارہ ہے کہ وہ اپنی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی طرف سے پیش کردہ شرائط کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور وہ خواتین اور اقلیتی گروپوں کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق سلوک کریں گے۔
حالانکہ طالبان کو اس وقت بین الاقوامی برادری کی امداد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ملک کی معیشت تباہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ خشک سالی اور داعش کا بڑھتا ہوا خطرہ بھی بڑے چیلنج بن کر سامنے کھڑے ہیں۔
پیر کے روزلوگوں کو جن عہدوں پر فائز کیا گیا ہے ان میں وزیر اعظم کے سیاسی نائب، نائب وزراء اور افغان ہلال احمر سوسائٹی کے نائب سربراہ شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر عہدے وزارت دفاع اور آرمی سے متعلق ہیں جب کہ نائبین کو کابل، ہلمند، ہرات اور قندھار کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ مولوی عبدالکبیر کو ایڈیشنل ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا گیا ہے۔ وہ طالبان قیادت کونسل کے رکن بھی ہیں اور سابقہ طالبان حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
اگست کے وسط میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے ہی ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کابل کو مالی امداد روک دی تھی۔ امریکا نے اپنے بینکوں میں جمع افغان سنٹرل بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ماضی میں افغانستان کے سرکاری خرچ کا تقریباً 75 فیصد غیر ملکی امداد پر منحصر کرتا تھا۔ اس امداد کے بغیر طالبان حکومت کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینا مشکل ہوگیا ہے اور ملک میں اقتصادی بحران کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔
طالبان نے نئی تقرریو ں کو عبوری حکومت کا حصہ قرار دیا ہے تاہم انہوں نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ انتخابات کرانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ستمبر کے اواخر میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ آنے والے وقتوں میں کابینہ میں عورتوں کو شامل کرنے کا امکان ہے تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی تھی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ پیر کے روز افغانستان کی عبوری حکومت کے کابینہ کی پہلی میٹنگ کابل میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں افغان شہریوں کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرنے فیصلہ کیا گیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی بختار نے بتایا کہ نئے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر ‘اسلامی امارات افغانستان‘ لکھا ہو گا۔ طالبان اپنی حکومت کے لیے اسلامی جمہوریہ افغانستان کے بجائے اسی نام کا استعمال کر رہے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ غیر ملکی حکومتیں اس نئے پاسپورٹ کو تسلیم کریں گی یا نہیں کیونکہ بین الاقوامی برادری نے طالبان حکومت کو ابھی تک افغانستان کی قانونی حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔
کابینہ کی میٹنگ میں کابل میونسپلٹی کو حکم دیا گیا کہ وہ زمینوں کے غیر قانونی قبضے کو روکنے کے لیے طریقہ کار وضع کرے۔ سکیورٹی کی متعدد وزارتوں سے ایک مشترکہ کمیشن تشکیل دینے کے لیے کہا گیا ہے جو دارالحکومت اور صوبوں کی سکیورٹی کو بہتر بنانے پر توجہ دے گی۔