کراچی (جیوڈیسک) امریکی اخبار’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ لکھتا ہے کہ دہشت گرد پاکستانی ریاست کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور ملک کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے خواہاں تھے تاہم انہیں کراچی حملے سے اپنی کوششوں کا جواب مل گیا۔ دہشت گردی روز مرہ کی زندگی کی ایک حقیقت بن چکا ہے۔
پاکستان کی اشرافیہ نے کئی دہائیاںبھارت کی جانب سے حملے کے خدشات میں صرف کردیں لیکن اب صورت حال یکسر بدل رہی ہے اب وہ اپنے اندر سے ہی حملوں کو مدعو کر رہے ہیں۔ اخبار نے طالبان کو ایک آفت اور بلا سے تشبیہ دیتے ہوئے پاکستان کی عسکری قوتوں پر الزام عائد کیا کہ یہ بلا ان کی اپنی پیدا کردہ ہے ، جو اپنے ہی لوگوں پر حملہ آور ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی نے طالبان کو پروان چڑھایا کہ وہ کشمیر میں بھارت کے ساتھ جنگ کریں اور انہوں نے افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے طالبان کی حفاظت کی۔
فوج نے دہشت گردوں کو تحفظ دینے کی ڈبل گیم کھیلی جب کہ دہشت گردوں نے پاکستان کی طرف اپنی کارروائیوں کا رخ موڑ دیا۔طالبان نے راولپنڈی میںبار بار فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا، حالیہ ہفتے ایسا ہی حملہ کیا گیا۔ 2011 میں کراچی میں نیوی بیس کو محاصرے میں لے لیا۔ فوج نے طالبان کے ساتھ بہادری سے لڑائی کی اور حالیہ ہفتوں میں طالبان کے زیر قبضہ مغربی قبائلی علاقوں میں فضائی حملوں کا آغاز کیا ہے۔ اس کے باوجود فوج نے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت انسداد دہشت گردی یا زمینی مہم کی کوشش کبھی نہیں کی ہے۔ اخبار نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی افغان طالبا ن کو پناہ دیتے ہیں اور افغان طالبان کے رہنما ملا عمر کو انہوں نے غالباًکوئٹہ میںمحفوظ پناہ گاہ فراہم کررکھی ہے، طالبان کے اتحادی حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی ریاست تحفظ فراہم کرتی ہے۔
گزشتہ روز کے حملے میں وزرا ء اور سینئرفوجی حکام نے اپنے الگ الگ بیان میں’’ایک غیر ملکی ہاتھ‘‘(یعنی، بھارت) کے بارے اظہارخیال کیا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر پاکستانی ایسی ریڈیکل بغاوت سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں خود فریبی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے ،انہیں اپنے اس پیدا کردہ دہشت گردی کو شکست دینے کی ایک نئی حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔