افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں طالبان کی قید سے تین برس بعد رہائی پانے والے آسٹریلوی پروفیسر ٹیموتھی ویکس نے کہا ہے کہ وہ ان کے دل میں اپنے اغواکاروں کے لیے کوئی نفرت نہیں۔
پچاس سالہ ٹیموتھی ویکس اور ان کے امریکی ساتھی کیون کنگ کو حال ہی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ایک ڈیل کے نتیجے میں رہائی ملی۔
ٹیموتھی ویکس نے بتایا کہ ان کی رہائی کے لیے امریکی فوج نے کئی بار کارروائی کی، مگر یہ فوجی دستے ان تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو پائے۔
ایک نیوز کانفرنس میں طالبان سے متعلق اپنے جذبات کے بارے مین ٹیموتھی ویکس نی کہا، ”میں ان سے بالکل نفرت نہیں کرتا۔ بلکہ ان میں سے تو کچھ ایسے تھے، جن کے لیے میرے دل میں احترام اور شفقت کے جذبات ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑے رحم دل تھے اور بھلے لوگ بھی تھے۔ اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر یہ لوگ ان کاموں میں کیسے پڑ گئے؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ”میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ شاید یہ نہ مانیں، مگر میری نظر میں وہ بس فوجی تھے، جو اپنے کمانڈروں کے احکامات کی تعمیل کررہے تھے۔ ان کے پاس کوئی اور چوئس نہیں تھی۔‘‘
پروفیسر ٹیموتھی ویکس نےکہا کہ امریکی کمانڈوز نے انہیں بازیاب کرانے کی کم از کم چھ بار کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی امریکی خصوصی دستوں نے ایسی کارروائی کی، اس سے چند گھنٹوں قبل ان (مغویوں) کو طالبان نے کسی اور جگہ منتقل کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی ہی ایک کارروائی رواں برس اپریل میں بھی کی گئی۔ ویکس کا کہنا تھا کہ انہیں گارڈ نے رات کو دو بجے جگایا اور بتایا کہ داعش کے جہادیوں کی جانب سے ان پر فائرنگ کی جا رہی ہے اور پھر وہیں انہیں ایک سرنگ میں چھپا دیا گیا۔
”مجھے اب لگتا ہے کہ وہ اصل میں امریکی کمانڈوز تھے، جو ہماری رہائی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ میرے خیال میں وہ دروازے کے باہر تک پہنچ گئے تھے۔ اسی لمحے ہمیں زمین میں ایک سے دو میٹر نیچے موجود ایک سرنگ میں منتقل کیا گیا تھا اور اس کے بعد دروازے پر ایک زور دار دھماکا ہوا۔
پھر ہمارے نگرانی پر مامور گارڈ اوپر گئے اور ہم نے مشین گنوں کی زبردست فائرنگ سنی۔ انہوں نے ہمیں سرنگ میں نیچے کی جانب دبایا ہوا تھا، جہاں میں گِرا اور بے ہوش ہو گیا۔‘‘
ویکس نے بتایا کہ انہیں اور ان کے امریکی ساتھی قیدی کیون کنگ کو افغانستان اور پاکستان کے متعدد دورافتادہ سرحدی مقامات پر منتقل کیا گیا، جب کہ اس دوران انہیں نہایت چھوٹے کمروں میں بند کیا جاتا، جن کی کھڑکیاں نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ گو کہ ان کی زندگی ہر لمحے خطرات کی زد میں تھی، تاہم انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ”مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ ایک دن میں اس قید سے آزاد ہو جاؤں گا۔ ہاں مگر اس میں وقت میری توقع سے زیادہ لگ گیا۔‘‘