ننگرہار (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان نے اپنی اسپیشل فورسز کو یہ ہدف دے دیا ہے کہ ملک بھر میں’دولت اسلامیہ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے۔ مستقبل میں داعش کے جنگجو طالبان کے لیے مسلسل درد سر بن سکتے ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے طالبان کے ترجمان بلال کریمی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان فورسز نے داعش کے متعدد اراکان کو پہلے ہی یا تو ہلاک یا پھر گرفتار کر لیا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں کو طالبان ‘مفسد فورسز‘ قرار دیتے ہیں۔ بلال کریمی کے مطابق داعش کا بظاہر ملک میں کوئی گڑھ نہیں ہے لیکن اس کی ‘نظر نہ آنے والی‘ موجودگی کو بھی ختم کیا جائے گا۔
طالبان نے یہ تو نہیں بتایا کہ داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کہاں کہاں شروع کیا گیا ہے لیکن مقامی میڈیا پر نشر ہونے والے خبروں کے مطابق طالبان نے دارالحکومت کابل اور مشرقی صوبے ننگرہار میں کارروائیاں کی ہیں۔ حالیہ چند روز میں طالبان کے خلاف جو حملے ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری داعش نے ہی قبول کی ہے۔ ایسے زیادہ تر حملے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں کیے گئے تھے۔
اس صوبے میں ایک عرصے سے ایسے مقامی جنگجو موجود ہیں، جو داعش کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ اس صوبے میں ماضی میں بھی طالبان اور داعش کے جنگجوؤں میں مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ ماضی میں طالبان اشرف غنی حکومت پر بھی الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے اشرف غنی حکومت کی جانب سے داعش کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ ‘اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ تنظیم درجنوں ہلاکت خیز حملے کر چکی ہے۔ اس انتہاپسند تنظیم کی جانب سے زیادہ تر ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔