امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن و مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ تھا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اشرف غنی کے اچانک فرار نے معاملہ بگاڑ دیا۔
افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد پہلے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کےساتھ معاہدہ تھا کہ2ہفتےتک کابل میں داخل نہیں ہوں گے،اس دوران اقتدارکی منتقلی عمل میں آنی تھی لیکن اشرف غنی اچانک ملک سے فرار ہوگئے جس سے امریکی اعلیٰ قیادت بھی حیران رہ گئی۔
زلمےخلیل زاد کے مطابق،15 اگست کواشرف غنی کے کابل سے فرار کے دن طالبان کی جنرل مکینزی سےملاقات طےتھی تاہم اشرف غنی کے اچانک افغانستان سے چلے جانے سےطالبان کےساتھ معاہدہ ٹوٹ گیا۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ امریکی اجلاس میں طالبان نےکہا تھاکہ کیاامریکی فوج کابل کی سکیورٹی یقینی بنائےگی؟ تاہم ہم نے سکیورٹی کی ذمےداری قبول نہیں کی تھی۔
دوران انٹرویو زلمے خلیل نے افغان جنگ کے خاتمے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ افغانوں پرمنحصرہےکہ وہ امن معاہدے پر پہنچیں۔
خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےزلمےخلیل زادکوافغان امن مذاکرات کی ذمہ داری سونپی تھی۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق ،زلمےخلیل زاد نےطالبان کےساتھ دوحہ میں امن معاہدہ کیا تھا،تاہم کابل پرطالبان کے قبضےکے بعد زلمے خلیل زاد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب کابل پر طالبان کے کنٹرول کے حوالے وائٹ ہاؤس کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مزید ایک لمحہ قیام کا بھی آپشن نہیں تھا،ہمیں واضح تاثر دیاگیاکہ قیام کو مزید طول دیا تو ہمارے اہلکار دوبارہ طالبان کے تشدد کا نشانہ بنیں گے۔
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ اشرف غنی سے14 اگست کوٹیلی فون پربات ہوئی تھی، جس دوران افغان رہنماؤں نےعبوری حکومت میں کام کرنےپررضامندی ظاہرکی تھی۔
انٹونی بلکنکن کے مطابق افغان رہنماؤں نےیہ بھی کہا تھا کہ طالبان نےانحراف کیاتو مرتےدم تک لڑیں گے۔
خیال رہے کہ طالبان کا مؤقف ہے کہ کابل سے اشرف غنی کے فرار کے بعد دارالحکومت میں حالات خراب ہورہے تھے، طالبان کے نام پر لوٹ مار ہورہی تھی جس کی وجہ سے مجبوراً وہاں کے حالات کنٹرول کرنے کے لیے کابل میں داخل ہونا پڑا۔