نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان کے سات سب سے طاقتور رہنماؤں میں سے ایک شیر محمد ستانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت یافتہ ہیں۔ بھارتی فوجی کے ایک سابق جنرل اور ستانکزئی کے بیچ میٹ کا کہنا ہے کہ ستانکزئی مذہب کی جانب کبھی مائل نہیں رہے۔
شیر محمد عباس ستانکزئی نے بھارت کے اہم ترین فوجی تربیتی ادارے دہرہ دون کے انڈین ملٹری اکیڈمی (آئی ایم اے) کے 1982 بیچ میں تربیت حاصل کی تھی۔60 سالہ ستانکزئی آج طالبان کے سات سب سے طاقتور رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
ستانکزئی کے ساتھ تربیت حاصل کرنے والے بھارت کے سابق میجر جنرل ڈی اے چترویدی نے بتایا کہ ستانکزئی جب آئی ایم اے میں داخل ہوئے تو ان کی عمر بیس برس تھی۔ وہ آئی ایم اے کی بھگت بٹالین کے کیرن کمپنی کے 45 جینٹلمین کیڈٹوں میں سے ایک تھے،”ہم لوگ انہیں ‘شیرو‘ کے نام سے پکارتے تھے۔وہ خاصے ہٹّے کٹّے تھے تاہم ان کا قد زیادہ اونچا نہیں تھا اور وہ کبھی بھی مذہب کی طرف مائل نہیں نظر آئے۔‘‘
بھارت کے اہم فوجی اعزازات پرم وششٹ سیوا میڈل، اتی وششٹ سیوا میڈل اور سینا میڈل سے اعزاز یافتہ ریٹائرڈ میجر جنرل چترویدی کہتے ہیں،”وہ ہم لوگوں میں کافی مقبول تھے۔ وہ اکیڈمی کے دیگر کیڈٹس کے مقابلے میں تھوڑے بڑے لگتے تھے۔ ان کی شاندار مونچھیں تھیں۔ اس وقت ان کے نظریات میں کسی بھی صورت میں شدت پسندی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ایک عام افغان کیڈٹ کی طرح تھے جو بھارت میں اپنا وقت انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔”
آئی ایم اے میں آزادی کے بعد سے ہی غیر ملکی کیڈٹوں کو داخلہ ملتا رہا ہے تاہم افغانستان کے کیڈٹو ں کو داخلہ دینے کا سلسلہ 1971ء میں بھارت۔پاکستان جنگ کے بعد شروع ہوا۔
عباس ستانکزئی کے ایک دیگر بیچ میٹ ریٹائرڈ کرنل کیسر سنگھ شخاوت بتاتے ہیں کہ ستانکزئی افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز سے براہ راست آئی ایم اے میں آئے تھے،”وہ عام نوجوان کی طرح تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ہم ایک مرتبہ ساتھ میں رشی کیش گئے تھے اور دریائے گنگا میں تیراکی بھی کی تھی۔ میرے پاس اس دن کی ایک تصویر بھی موجود ہے، جس میں شیرو اور میں آئی ایم اے کے سوئمنگ سوٹ میں ہیں۔ان کا رویہ نہایت دوستانہ تھا اور ہم اختتام ہفتہ پر اکثر جنگلوں اور پہاڑوں میں گھومنے جایا کرتے تھے۔”
ستانکزئی نے افغان نیشنل آرمی میں لیفٹیننٹ کے طور پر جوائن کرنے سے قبل آئی ایم اے میں پری کمیشن کی تربیت مکمل کی تھی۔یہ وہ وقت تھا جب سابقہ سوویت یونین افغانستان کو چھوڑ کر جا رہا تھا۔
ستانکزئی 1996ء میں افغان آرمی سے الگ ہو کر طالبان میں شامل ہو گئے۔ وہ امریکا سے طالبان کو سفارتی طور پر تسلیم کرانے میں کلنٹن انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں بھی شامل رہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع 1997ء میں ایک رپورٹ میں انہیں طالبان حکومت کا کارگزار وزیر خارجہ بتایا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھارت میں قیام کے دوران انگلش سیکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ طالبان کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک بن گئے۔ ان کی انگلش پر مہارت اور فوجی تربیت کافی مدد گار ثابت ہوئی۔جب طالبان نے دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر قائم کیا تو وہاں کے سربراہ کے طور پر تعینات کیے گئے اور سن 2019 میں طالبان کے شریک بانی عبدالغنی برادر کے دوحہ کا دفتر سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہے۔
ستانکزئی افغان امن مساعی کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک ہیں۔
بھارت کے ساتھ طالبان کے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے میجر جنرل چترویدی کا خیال ہے کہ ستانکزئی ٹرمپ کارڈ ثابت ہو سکتے ہیں۔
میجر جنرل چترویدی کا خیال ہے،”بھارت میں گزارے گئے دنوں کی خوشگوار یادیں یقیناً ان کے ساتھ ہوں گی۔ میں کہنا چاہتاہوں کہ یہ بھارتی وزارت خارجہ کے لیے ایک موقع ہے اسے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے آئی ایم اے سے تعلق رکھنے والے ستانکزئی کے دوستوں کے نیٹ ورک کو استعمال کرنا چاہیے۔”
آئی ایم اے دہرہ دون میں اس وقت تقریباً 33 ملکوں کے کیڈٹس تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ماضی میں جن اہم پاکستانی فوجی رہنماؤں نے آئی ایم اے سے تربیت حاصل کی ان میں پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد موسی، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان خٹک، سابق وزیر خارجہ کرنل صاحب زادہ یعقوب خان، پاکستان کے کمانڈر ان چیف اور تیسرے صدر جنرل یحیٰ خان شامل ہیں۔
بنگلہ دیش مکتی باہنی کے کمانڈ ر ان چیف جنرل ایم اے جی عثمانی اور پہلے پاکستان اور پھر بنگلہ دیش آرمی میں خدمات دینے والے لیفٹیننٹ جنرل خواجہ وسیع الدین نے بھی انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت حاصل کی ہے۔