کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغان حکومت کو ان ویڈیوز پر گہری تشویش ہے، جن میں طالبان رہنماؤں کو ’پاکستان میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں‘ کے دورے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں طالبان لیڈر زخمیوں سے ملاقات کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
کابل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح افغان عسکریت پسندوں کے رہنماؤں نے پاکستان میں بظاہر نہ صرف زخمی طالبان جنگجوؤں سے ملاقات کی بلکہ انہوں نے کابل حکومت کے خلاف برسرپیکار افغان طالبان کے پاکستانی شہروں میں قائم مبینہ تربیتی کیمپوں کے دورے بھی کیے۔
افغان وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں آج جمعے کے روز کہا گیا، ”افغان باغی عناصر اور ان کے رہنماؤں کی پاکستان کے ریاستی علاقے میں موجودگی اور وہاں کھلم کھلا کی جانے والی سرگرمیاں افغانستان کی قومی سلامتی اور خود مختاری کی واضح خلاف ورزی ہیں۔‘‘
افغانستان کی طرف سے پاکستان پر شروع سے ہی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کی مدد کرنے کے علاوہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کرتا ہے تاہم پاکستان کی طرف سے کابل حکومت کے ایسے دعووں کی ہمیشہ ہی تردید کی جاتی ہے۔
کابل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے اور طالبان کی قیادت کی موجودگی خطے میں نا صرف مزید بحران اور عدم استحکام کی وجہ بن رہے ہیں بلکہ یہ صورت حال افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی کوششوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کابل حکومت نے ایک بار پھر ہمسایہ ملک پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ریاستی علاقے کو ان ‘باغیوں‘ کے استعمال میں آنے سے روکے۔
اسی ہفتے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی ویڈیو فوٹیج میں افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی میں دیکھا جا سکتا تھا، جس میں یہ اشارہ دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ طالبان افغان امن عمل سے متعلق اپنے تمام فیصلے پاکستان میں مقیم اپنی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
اسی طرح ایک اور ویڈیو میں طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما اور مذاکراتی مندوبین میں سے ایک ملا فضل اخوند کو بھی دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ طالبان کے ایک تربیتی مرکز میں اس تحریک کے جنگجوؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس تربیتی کیمپ کی جگہ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی تاہم اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی علاقہ ہے۔
کابل سے اس بارے میں موصولہ رپورٹوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ افغان حکومت نے یہ تعین کس بنیاد پر کیا کہ ان ویڈیوز میں نظر آنے والے تربیتی کیمپ پاکستانی علاقے ہی میں تھے۔ پاکستان کا مسلسل یہ دعویٰ ہے کہ وہ طالبان کو کوئی مدد فراہم کرتا ہے اور نا ہی افغان طالبان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پاکستانی سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
دوسری طرف طالبان نے تصدیق کر دی ہے کہ ملا برادر نے کراچی میں ایک ہسپتال کا جو دورہ کیا، وہ افغان طالبان کے ایک وفد کے اسی ماہ کے وسط میں پاکستان کے ایک دورے کے دوران کیا گیا تھا۔