واہگہ بارڈر خود کش دھماکہ

Wagah Border Blast

Wagah Border Blast

تحریر: بدر سرحدی

اپنے ایک مضمون میں پہلے ہی لکھا کے کہ ہم شدت پسندوں یا خونخوار دہشت گردوں کو پہاڑوں اور غاروں میں تلاش کرکے جیٹ طیاروں سے بمباری کرکے ختم کرنے کے لئے ضرب عضب اپریشن کر رہے اور اب تک کی اخباری اطلاعات کے مطابق اِن کا صفایا ہو چکا ہے، مگر لاہور میں واہگہ بارڈر پر خود کش حملہ نے ثابت کر دیا کہ وہ فی الحقیقت دہشتگرد ہماری آستینوں میں ہیں جہاں انہیں ہماری معاونت حاصل ہے،مولانا فضل الرحمن نے حج سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ اہم انکشاف کیا کہ آپریشن ضرب عضب میں محض آٹھ یا دس دہشت گرد مارے گئے ہیں باقی سب پہلے ہی نکل گئے تھے ،۔ بات عوام کے سمجھنے کی ،دراصل اِس سال کے شروع میں جب مذاکرات کا کھیل جاری تھا اور کئی مرتبہ ڈیڈ لاک بھی ہوأ تو اُن کے حمائتوں نے طالبان قیادت کو الرٹ کردیا تھا کہ حکومت خطر ناک اپریشن کرنے جاری ہے

علاقہ چھوڑ دو ….میں نے انہیں کالموں میں لکھا تھا کہ طالبان حکومت کو کھلا رہے ، اگر مذاکرات ختم نہ ہوتے تو طالبان اپنے ایجنڈے کی کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے طالبان کامیابی کی کے نزیک تھے کہ مذاکرات کا کھیل ختم ہو گیا ، مگر سچ یہ بھی تھا کہ حکومت طالبان کو کھلا رہی تھی دونوں ایک دوسرے کو کھلا رہے تھے، چنانچہ جونہی دہشت گرد وں کو علاقہ چھوڑنے کا گرین سگنل ملاانہوں نے علاقہ چھوڑ دیا ایک نمبر قیادت سرحد پار کر گئی اور دو نمبر قیادت نکل کر قوم کی آستینوں میں چھپ گئی اور تین ماہ کی خاموشی کے بعد کاروائیاں شرو ع کر دیں… جس کا ہماری ایجنسیوں کوعلم نہ ہوأ اور آپریشن ضرب عضب کے نام سے وزیرستان میں بارود کی بارش شروع کر دی،تین ماہ کی خاموشی سے ہم نے جان لیا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے

یہ محض ہماری خوش فہمی تھی طالبان اپنے ایجنڈے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،اُن کے ایجنڈے میں کوئی ابہام نہیں وہ ہر صورت پاکستان کو فتح کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیںاور اندر ہی سے انہیں مکمل سپورٹ مل رہی ہے گو ٢٠ ستمبر سے اپنی موجودگی ظاہر کی جارہی تھی مگر واہگہ بارڈر پر خود کش حملہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ،ضرب عضب آپریشن میں جتنی کامیابی کے دعوے کئے گئے اُن سے کہیں زیادہ واہگہ بارڈر کا حملہ تباہ کن ثابت ہوأ اِس حملے نے جہاں قوم کو شدید صدمے سے دو چار کر دیا وہاں سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے ….! مولانا فضل رلرحمن نے سچ کہا کہ قیادت تو پہلے ہی نکل گئی تھی ،ہماری جیٹ طیاروں کی بمباری سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوأ ،اور اب وہ پورے ملک میں اپنی کاروائیاں کریں گے ایک اور بات ہمارے جیٹ طیارے انہیں ختم نہیں کرسکے اگر انہیں ختم کر سکتے تھے

تو صرف ڈرون حملے ہی مگر ڈرون تو ہماری سلامتی کے خلاف تھے اور اب وہ اُن محفوظ غاروں سے نکل کر شہری آبادیوں میں پہنچ چکے جنہیں اب ختم کرنا ممکن ہی نہیں رہا،اب اپنی کارکردگی دکھاتے ہوئے وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ پہلے آگاہ کر دیا تھا کہ لاہور میں خطرہ ہے اگر اُنہیں یہ علم ہو گیا تھا کہ لاہور کو خطرہ ہے تو اُس ایجنسی نے اِس خطرے کو روکنے کا پلان کیوں نہ دیا ،آئی جی پنجاب نے کہا کہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیںکہ واہگہ بارڈر پر دہشت گردی ہو سکتی ہے واہگہ سیکیورٹی رینجر اہلکار خود چیک کرتے ہیں کیا خود کش بمبار آسمان سے اترا یا وہیں زمین سے اوپر آیا ،وہ موت کی جیکٹ پہن کر آیا یا وہاں اُسے پہنائی گئی ، اُسے وہاں تک کون لایا بہر حال سیکیورٹی کے حوالے سے یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب عوام چاہیں گے مگر…،آئی جی یہ کہہ کر بری الزمہ نہیں ہو سکتے کہ باڈر پر رینجر اہلکا چیکنگ کرتے ہیں

یہ تکا تو کوئی بھی لگا سکتا ہے کہ لاہور میں خطرہ ہے خطرہ تو پورے ملک میں ہے کوئی ایسا مقام نہیں جو دہشتگردوں کی دسترس سے باہر اور محفوظ ہو ،کیونکہ ہر جگہ اُ ن کی حمائت موجود ہے جو اُن کی خفیہ راہنمائی کرتی ہے …جب سیاسی حکومتیں عوام کو تعلیم، روزگار اور علاج ایسی بنیادی سہوتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوں تو اِن حالات میں بنیاد پرست اور شدت پسند قوتوں کو آگے بڑھنے کے بہتر مواقع ملتے ہیں اور پھر ان کے زیر اہتمام چلنے والے خصوصا فلاحی ادارے عوام کی توجہ ،ہمدردی اور حمائت حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے، نام لئے بغیر پاکستان میں ایسی شدت پسند جماعتیں اور اُن کی زیر سایہ چلنے والی فلای تنظیمی ،در اصل سیاسی حکومتوں کی یہ کمزوری جس کا فائدہ یہ ادارے اٹھاتے ہیں جو در پردہ طالبان کو قوت فراہم کرتی ہیں ، پاکستان میں قومی بجٹ کا عوامی بنیادی فلاح کے لئے خرچ نہ ہونے کے برابر ہے

Ishaq Dar

Ishaq Dar

لاکھوں بچے غربت کی وجہ سے سکول نہیں جاسکتے ،اور یہ اعتراف وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا کہ ملک کی ساٹھ فیصد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ایسے میں غریب ماں باپ یہ سوچ کر بچوں کو مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں ایک تو اُنہیں روٹی ملتی رہے گی دوسرے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اِس کا روزگار کسی نہ کسی مسجد کی صورت میں مل جائے گا ،اب یہیں سے ایسی تنظیمیں اپنے کارکن بھی حاصل کرتی ہیں یہ مدرسے ان جماعتوں کی پنیری ہیں پاکستا ن میں ان مدرسوں کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے چار سال قبل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ١٦ ہزار رجسٹرڈ مدارس تھے ،لیکن بہت بڑی تعداد غیر رجسٹرڈ ،غیر سرکاری زرائع سے اِن کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہیں ،اب یہ سمجھنا کچھ مشکل بھی نہیں شمالی ویرستان سے نکلنے کے بعد شدت پسندوں کی بہت بڑی تعداد جو ہزاروں میں تھی کہاں گئی

چند روز قبل ہی اسلام آباد کی ایک مسجد سے دو،چار نہیں ٩ دشت گرد پکڑے گئے اسی طرح یہ لوگ مسجدوں یا مدرسوں میں آزادی سے اپنے ہدف کو تلاش کرتے ہیں اور کابل سے لائی گئی انٹرنیشنل سمیں استعمال کرکے قیادت سے رابطہ میں رہتے ہیں اور پھر اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیںانہیں اب ختم کرنا ممکن نہیں کہ ملک میں جہادی دینی جماعتوں ان کے جہادی لشکروں کے وسیلے ملک میں ٥٠ فیصد حمائت حاصل ہے کہنے کو تو بعض جہادی لشکر کالعدم ہیں مگر وہ……، بعض دینی جماعتوں کے راہنما بڑے فخر سے اخباری بیان جاری کرتے ہیں کہ واہگہ خود کش حملہ میں بھارت ملوث ہے کوئی کہتا ہے بھارت ،اسرائیل اور امریکہ کی سازش ہے ،وہ بھول جاتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں سازش تو ہے مگر افرادی قوت تو پاکستان ہی میں تیار کی جاتی اور حاصل کرتے ہیں انکے ایسے بیان ١٧٥٧،اور ١٧٩٩ء کی تاریخ کی سچائی پر مہر لگاتے ہیں

جب سراج الدولہ اور والئے میسور سلطان ٹیپو کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مٹھی بھر سپاہیوں نے کیونکر اور کیسے شکست دی ، کہ قوم و ملک کے غدار تو یہیں سے خریدے جاتے ہیں…..! پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش توہے اس کی تکمیل کیلئے ڈالر،اور منصوبہ آ رہا ہے جس کے تحت طالبان اور پاکستان میں پھیلے اُن کے حمائیتی طالبان کو تقویت دے رہے مگر طالبان کا اپنے ایجنڈے پر کہ پاکستان کو فتح کرنا ہے میرے منہ میں خاک اگر ایسا کچھ ہوأ تو اِن ملک غداروں کو کچھ بھی نہیں ملے گا ،انہیں کالموں میں لکھا تھا ،آپریشن ضربِ عضب کے بعد یہ ہماری آستیوں آ کر چھپ گئے ہیں حالات خطر ناک موڑ پر پہنچ ….ہماری ایجنسیاں اطلاع دیتی ہیں دہشتگرد لاہور میں داخل ہو چکے ،اِس کا کیا جواب ہے کہ شمالی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی میں تو اُن کے اڈے تباہ کر دئے پھر وہ کہاں سے اور کیسے لاہور پہنچے……برق گُلش کی نگہباں ہے خدا خیر کرے

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی
i.mbadarsarhadi@gmail.com