ہمیں تو” باغبانوں” نے یہ بتلایا تھا کہ صحنِ چمن میں اب کی بار جو موسمِ گُل آئے گا اُس کے معطر جھونکوں سے فضائیں عطر بیز ہو جائیں گی لیکن تاحال تو ہر طرف بادِ سموم کا راج ہے جس میں حیاتِ مفلس گھُٹ گھُٹ کے دَم توڑ رہی ہے۔ شاید ہم ہی کم نصیب ہیں کہ جِس شجرِ آزادی کو ہم اپنے خون سے سینچ رہے ہیں اُس کی تو زمین ہی بنجر ہے۔ لیکن بنجر بھی تو نہیں کہہ سکتے کہ یہاں منافقت، جھوٹ اور ریا کی کھیتیاں خوب لہلہاتی ہیں اوربارود کی کھاد سے پلنے والے نخل اب اتنے تن آوردرخت بن چکے ہیں کہ اِنہیں جَڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا یارا نہیں۔ نتیجہ یہ کہ تلاشِ رزق میں نکلے پرندے بہ نوکِ تیرجا سجتے ہیں اور مائیں، بہنیں، بیویاں، بیٹیاں درِ اُمید وا کیے اُن کی راہ تکتی رہ جاتی ہیں جب ساری اُمیدیں دَم توڑ جاتی ہیں تو اُن کی پلکوں پہ رُکے نجمِ سحر کے سے آنسوؤں کے قطرے ٹَپ ٹَپ گرنے لگتے ہیں جو منادی ہوتی ہے اِس بات کی کہ اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
طالبان نامی وحشی درندوں نے ایک دفعہ پھربنوں میں سکیورٹی فورسز کے کڑیل جوانوں کے خون سے دھرتی کولہو میں نہلا دیا ۔بیس سے زائد جوان شہید ہوئے ۔آر۔اے بازار راولپنڈی میں چھ فوجی جوانوں سمیت چودہ افراد شہید کر دیئے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔اِن دونوں واقعات کی ذمہ داری وحشیوں نے قبول کر لی۔ یہ بزدل دہشت گرد وار تو ہمیشہ چھُپ کر کرتے ہیں لیکن دعویٰ یہ کہ وہ دینِ مبیں کی سر بلندی کے لیے مصروفِ پیکار ہیں۔ لاریب اِن درندوں کا دین سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ اور بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کا یہ ٹولہ میرے دین کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے اِس لیے دھرتی سے اِن کے ناپاک وجود کو نابود کر دینا عین عبادت ہے۔
نہ جانے اِس ارضِ پاک کو ضَو بخشنے اور درسِ بیداری دینے والے کب آئیں گے کہ حاکمانِ وقت سے اِس کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔اُنہیں تو یہ ادراک بھی نہیں کہ مجبوروں اور مقہوروں کے لبوں کے بند کواڑوں کے پیچھے کیا حشر بپا ہے۔ تحقیق کہ چمن کو جو ”طالبانی روگ” لگا ہے وہ اِن مسیحاؤں کی مسیحائی سے جانے کا نہیں کیونکہ وہ تو خود بے بس ہیں اور چنگیزیت کے عَلم برداروں کو نیست و نابود کرنے کی اپنے تئیں ہمت ہی نہیں پاتے۔ ہمارے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد کی کیفیت ”گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل” کی سی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات مشکل ہیں اور اُن کے خلاف ایکشن بھی اُدھر طالبان ہیں کہ اپنی خباثتوں کا دھڑا دھڑ عملی ثبوت دیتے جا رہے ہیں۔
Taliban
جب سے حکومت نے مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے طالبان کے حملوں میں شدت آ گئی ہے اور تب سے اب تک 45 سے زائد خودکش حملے اور بم دھماکے ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا” طالبان حکومت کے ساتھ با مقصد مذاکرات کے لیے تیار ہیں ”۔لیکن اِس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ”حکومت سنجیدہ ، با اختیار اور مخلص نہیں اور پہلے حکومت اپنا اخلاص اور اختیار ثابت کرے ”۔شاہد اللہ شاہد نے اپنے خط میں لکھا ”ہم منافق حکمرانوں اور ظالم افواج پر واضح کرتے ہیں کہ جس شریعت کو تُم بندوق کے زور پر دبانا چاہتے ہو وہ تمہارے ایوانوں میں ضرور گونجے گی ہماری جنگ نفاذِ شریعت کے لیے ہے اور اِس مقصد کے لیے ہم شرعی اصولوں سے کبھی دست بردار نہیں ہونگے”۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے طالبان نے مذاکرات کے لیے جو شرائط رکھی تھیں وہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھیں۔ ڈرون حملوں کی بندش کے علاوہ طالبان کا مطالبہ تھا کہ حکومت وزیرستان سے افواج واپس بلائے اور جنگ بندی کا اعلان کرے جبکہ وہ خود کسی بھی صورت میں ہتھیار پھینکنے کو تیار نہیں تھے۔ انہو ں نے یہ بھی کہا کہ وہ آئینِ پاکستان کے تحت مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ پاکستانی آئین جمہوری اور سیکولر اقوام کا ایجنڈا ہے اور پاکستانی حکومت غلام وبے بَس ہے جبکہ وہ خود پہلے سے زیادہ منظم اور مضبوط ہیں۔
حکومت کی طرف سے بلائی جانے والی اے پی سی میں تو حکومت نے کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی تھی لیکن طالبان نے 35 مطالبات کی فہرست تھما دی ۔حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد مُلّا فضل اللہ اور اُس کے ساتھیوں نے مذاکرات سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن پتہ نہیں اب کِس مقصد کے حصول کی خاطر طالبان نے اچانک مذاکرات کی پیش کش کر دی۔ شاید یہ قوم کی ہمدردیاں جیتنے کی کوشش ہولیکن یہ بہر حال طے ہے کہ ابلیسیت کے علمبردار مذاکرات ہر گزنہیں چاہتے۔ شاہد اللہ شاہد نے اپنے خط میں حکومت کو منافق اور بے اختیار کہا اور افواجِ پاکستان کو ظالم جس سے صاف نظر آتا ہے کہ طالبان یا تویہ سمجھتے ہیں کہ اختیارات کا مرکز ظالم فوج ہے جس سے مذاکرات ممکن نہیں یا پھر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت اور فوج، دونوں کی ڈور امریکہ سے ہلتی ہے اِس لیے حکومت پہلے یہ ثابت کرے کہ وہ مکمل طور پر با اختیار ہے۔ اگر طالبان کو یہ یقین دلا بھی دیا جائے کہ حکومت مکمل با اختیارہے تو پھر بھی مذاکرات کی کامیابی ممکن نہیں کیونکہ طالبان موجودہ جمہوری نظام کو کفر کا نظام کہتے ہیں اور آئینِ پاکستان کے تحت مذاکرات کے لیے تیار نہیں ۔اِس کے علاوہ جس ”طالبانی شریعت کے نفاذ کی وہ بات کرتے ہیں وہ ارضِ پاک کے کسی عامی مسلمان کو بھی قبول نہیں۔پتہ نہیں طالبان کِن شرعی اصولوں سے کبھی دست بردار نہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ شریعتِ الٰہیہ کا تو پہلا اصول ہی یہی ہے کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ہتھیار نہ اٹھانے والوں کے لیے امان ہی امان ہے جب کہ اِن درندوں کا تو ٹارگٹ ہی بیگناہ اور معصوم بوڑھے، بچے، عورتیں اور مرد ہیں۔ یہ کیسی طالبانی شریعت ہے جس سے کوئی مسجد محفوظ ہے نہ امام بارگاہ، کوئی چرچ محفوظ ہے نہ مدرسہ اوریہ کیسے مسلمان ہیں جو جنازوں پر بھی خود کش حملے کرنے سے باز نہیں آتے۔ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ آئینِ پاکستان کے مطابق تمام قوانین مکمل اسلامی ڈھانچے میں ڈھل جائیں کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اِس کی صداقتوں اور قیامت تک کبھی گمراہ نہ ہونے کی گواہی خود میرے نبیۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے۔ لیکن ایسی شریعت جس میں وحشت ہی وحشت اور دہشت ہی دہشت ہو، اُس کا دینِ مبیں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
Imran Khan
محترم عمران خاں صاحب نے فرمایا ”حکمران طالبان سے مذاکرات نہیں کر سکتے تو پیچھے ہٹ جائیں، ہمیں موقع دیں” لیکن میاں نواز شریف صاحب تو پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ سیّد منور حسن، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق اور محترم عمران خاں طالبان سے مذاکرات کے لیے آگے آئیں۔اب خاں صاحب اورکِس اجازت کے طلب گار ہیں؟ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے بسم اللہ کریں، کوئی اُن کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنے گا۔سوال مگر یہ ہے کہ جب طالبان پاکستانی ہونے کے باوجود آئینِ پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو خاں صاحب کِس آئین کے تحت اُن سے مذاکرات کریں گے؟۔ خاں صاحب نے جس جمہوری نظام کے تحت ا نتخابات میں حصّہ لے کر خیبر پختونخواہ کی حکومت حاصل کی، طالبان تو اُس جمہوری نظام کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور وہ کہہ چکے ہیں کہ ”اگر عمران خاں مذاکرات چاہتے ہیں تو پہلے اِس کفریہ نظام سے باہر آئیں ”۔کیا تحریکِ انصاف طالبان کی اِس مشروط پیش کش کو قبول کرتے ہوئے اسمبلیوں سے استعفے دے کر ”کفریہ نظام” سے باہرآنا پسند کرے گی؟ خاں صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں۔
یہی شاہد اللہ شاہد نے بھی کہا ہے۔ اب خاں صاحب اور طالبان مل کر سنجیدگی کا کوئی ایسا”پیمانہ”خود ہی مقرر کر دیں جس کے تحت حکومت کو مذاکرات کے لیے” سنجیدہ ”کیا جا سکے۔ اگر وہ پیمانہ”کفریہ” جمہوری نظام کے تحت بننے والے آئینَ پاکستان کا خاتمہ اور طالبانی شریعت کا نفاذ ہے تو یہ قوم کو قبول ہے، نہ حکومت کو اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ محترم عمران خاں صاحب کو بھی قبول نہیں ہو گا اِس لیے خاں صاحب دست بستہ استدعا ہے کہ وہ ”نواز مخالف ” سیاست میں اتنا آگے نہ نکل جائیں کہ مراجعت ممکن نہ ہو۔