پنٹاگان (جیوڈیسک) امریکہ کے ایک اعلی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ پاکستان، روس اور ایران کی جانب سے طالبان شورش کی مددبین الاقوامی برادری کی جانب سے افغان حکومت کے سیاسی استحکام کی کوششوں کے لیے خطرہ ہے۔
افغانستان کے لیے نیٹو مشن کے سربراہ جنرل جان نکولسن کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے اندر شورش برپا کرنے والے گروپس کی بیرونی حمایت پر متفکر ہیں، خاص طورپر جب انہیں بیرونی حکومتیں پناہ گاہیں اور مدد فراہم کر رہی ہوں۔
انہوں نے جمعے کے رو ز پنٹاگان میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملک پاکستان میں اپنی پناہ گاہوں سے آکر، طالبان کے ساتھ مل کر لڑ نے والے حقانی نیت ورک کے دہشت گرد، امریکیوں، اتحادیوں اور افغان شراکت داروں کے بدستور ایک خطرہ ہیں۔
جنرل نکولسن نے کہا کہ حقانیوں نے اس وقت پانچ امریکی شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ جب ہم حقانی نیٹ ورک کے متعلق سوچتےہیں تو اس چیزکو یاد رکھنا چاہیے ۔ اور وہ بدستور ہمارے لیے تشویش اور فکر کی بنیادی وجہ ہیں ۔جب کہ وہ پاکستان میں اپنی پناہ گاہوں کا لطف اٹھا رہے ہیں۔
تاہم پاکستانی عہدے دار یہ اصرار کرتے ہیں ہیں ان کی سیکیورٹی فورسز نے طالبان عسکریت پسندوں کے وہ تمام بنیادی ڈھانچے ختم کر دیے ہیں جنہیں وہ سرحد کے آر پار حملوں کے لیے استعمال کیا کرتے تھے اور کمزور نگرانی کی افغان سرحدکو مضبوط بنانے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔
جنرل نکولسن نے یہ کہتے ہوئے طالبان کے روس اور ایران کے ساتھ رابطوں پر تشویش ظاہر کی کہ ان سے خطے میں سلامتی اور استحکام کو کوئی مدد نہیں مل رہی۔
ماسکو مبینہ طور پر اس لیے طالبان کی مدد کررہا ہے تاکہ افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کے اثرورسوخ کو روکا جا سکے اوراپنی وسطی ایشیائی ریاستوں کو اس خطرے سے محفوٖٖظ رکھا جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پچھلے مہینے کے آخر میں روس کے سفارت کار ولای سافرنکوف نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ طالبان پر عائد پابندیاں نرم کرے تاکہ فریقین کے درمیان امن بات چیت کو آگے بڑھانے میں مد دملے۔
جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ روس طالبان کو کھلم کھلا قانونی حیثیت دلانا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران بھی اس سے ملتی جلتی وجوہات کی بنا پر طالبان سے تعلقات اور ان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا افغان حکام اس مسئلے پر ایران اور روس دونوں سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے افغان قیادت پر بھی زور دیا کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اپنی اندورنی سیاسی رقابتوں سے نقصان نہ پہنچائیں۔