کابل (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے۔ کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد یہ اُن کا افغانستان کا پہلا دورہ ہے۔
امریکی صدر کا طیارہ بگرام کے فضائی اڈے پر اترا۔ اس دورے میں ٹرمپ کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر روبرٹ اوبرائن اور مشیروں کے ایک چھوٹے گروپ کے علاوہ صدارتی پاسداران کے افسران اور میڈیا کے اداروں کی نمائندگی کرنے والے رپورٹروں کا ایک گروپ بھی افغانستان پہنچا۔
ٹرمپ نے بگرام کے اڈے پر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ بعد ازاں انہوں نے امریکی فوجیوں کے سامنے خطاب بھی کیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ “افغان تحریک طالبان امن معاہدے کی خواہش رکھتی ہے”۔ ٹرمپ نے خیال ظاہر کیا کہ طالبان فائر بندی چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ “امریکا نے طالبان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کر دی ہے”۔
امریکی صدر کے ہمراہ موجود ایک میڈیا پرسن نے بتایا کہ ٹرمپ نے کابل کے نزدیک واقع بگرام کے فوجی اڈے پر امریکی فوجیوں سے بات چیت کی۔ اس سے قبل انہوں نے فوجیوں کو کھانا بھی پیش کیا تھا۔
اکتوبر میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ طالبان تحریک کے ساتھ بات چیت کو دوبارہ سے ڈگر پر لانے کی ایک کوشش تھی۔ اس سے قبل گذشتہ ماہ ٹرمپ نے بات چیت کا سلسلہ اچانک روک دینے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر دفاع بننے کے بعد یہ ایسپر کا افغانستان کا پہلا دورہ تھا۔
ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ روک دیا تھا۔ اس بات چیت کا مقصد امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلاء کے معاہدے تک پہنچنا ہے … اور اس کے مقابل طالبان کی جانب سے سیکورٹی ضمانتیں حاصل کرنا ہے۔
اس سے قبل طالبان نے ستمبر کے دوران کابل میں دھماکے کیے تھے۔ ان کارروائیوں میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
امریکا یہ باور کرا چکا ہے کہ اس نے ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت سے علاحدگی اختیار کرنے کے بعد سے افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی رفتار تیز کر دی ہے۔