افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت میں بھی خواتین کئی حقوق سے محروم دکھائی دیتی ہیں۔ افغانستان پر سن 2021 کے ماہ اگست میں طالبان نے حکومتی عمل داری قائم کی تھی۔
گزشتہ برس افغانستان میں سے امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے اچانک انخلا کے بعد طالبان نے سارے ملک پر بڑی تیزی کے ساتھ قبضہ کرتے ہوئے کابل پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس حکومت میں طالبان کا رویہ سابقہ حکومت کے مقابلے میں بہت نرم دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے گزشتہ حکومت کی طرح سخت شرعی احکامات کا نفاذ ابھی نہیں کیا۔ سابقہ حکومت میں خواتین تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دی گئی تھیں لیکن اس مرتبہ ان کا رویہ خاصا مختلف ہے۔ انہوں نے بعض محکموں میں صوبائی سطح پر خواتین کے لیے کام کرنے کے رہنما اصول ضرور معین کیے ہیں۔
طالبان کا موجودہ حکومت میں کہنا ہے کہ وہ خواتین کو کام کرنے کی اجازت دیتے کو تیار ہیں لیکن انہیں مردوں کے پہلو بہ پہلو کام نہیں کرنے دیا جا سکتا۔ عملی طور پر ابھی تک خواتین حکومتی اداروں میں ملازمت اختیار کرنے سے محروم ہیں۔ انہیں پیشہ ورانہ مہارت کے شعبوں میں فی الحال کام کی اجازت ہے اور ان شعبوں میں طبی نگہداشت اور تعلیم شامل ہیں۔
نجی شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں دفتر جاتے اور آتے ہوئے حراسی کا سامنا ہے۔ ایسے نجی اداروں میں طالبان کے خفیہ ایجنٹ بھی اچانک چھاپے مار کر دیکھتے ہیں کہ خواتین مردوں سے علیحدہ کام کرتی ہیں یا نہیں۔ بعض اداروں میں سے خواتین کو احتیاط کے تناظر میں نوکری سے فارغ بھی کر دیا گیا ہے۔
’ہم اب بھی موجود ہیں‘: افغان خواتین اُمید کا دامن نہیں چھوڑتیں ہرات میں نوکری کرتی خواتین
بعض مقامات پر خواتین کے چھوٹے چھوٹے گروپ مخصوص ملازمتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں کچھ کوآپریٹو ادارے بھی شامل ہیں، جیسا کہ یاسمین کے پھولوں کی پراسسنگ اور ان کا چننا وغیرہ۔ یہ کام افغان صوبے ہرات میں خواتین کرتی ہیں۔
ہرات کا شہر افغان معاشرتی معیارات کے مطابق برسوں سے کسی حد تک لبرل بھی خیال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب طالبان کی حکومت میں ابھی بھی ہزاروں خواتین ملازمتوں سے محروم ہیں۔ سابقہ حکومت میں یہ خواتین پولیس اور عدالتوں میں بھی روزگار حاصل کیے ہوئے تھیں۔
طالبان نے یہ ضرور کہا ہے کہ تعلیم لڑکیاں حاصل کر سکتی ہیں لیکن 13 سے 18 برس کی لڑکیوں کے اسکینڈری اسکولز گزشتہ برس اگست سے بند ہیں اور ابھی تک کھولے نہیں گئے۔ اب طالبان حکام نے کہا ہے کہ رواں برس مارچ کے آخر تک سبھی اسکول کھول دیے جائیں گے۔
اس تناظر میں اسکولوں کے بیشتر اساتذہ کی بیرون ممالک ہجرت اور لڑکیوں کے اسکولوں میں مرد ٹیچروں کے پڑھانے کی ممانعت سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مارچ میں بھی لڑکیوں کے تمام اسکول کھولنا ممکن نہیں ہو گا۔
حال ہی میں کئی نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہو تو گیا ہے لیکن ان میں بھی ٹیچرز کی شدید کمی بتائی گئی ہے۔ اسی طرح کوئی دو ہفتے قبل کچھ حکومتی جامعات یا یونیورسٹیوں کو بھی کھول دیا گیا ہے۔ ان میں طالبات کی تعداد غیر معمولی طور پر کم دکھائی دی ہے۔
طالبان نے حکومت قائم کرنے کے بعد ملکی ٹیلی وژن چینلوں کو ہدایات کی تھی کہ جن ڈراموں اور سلسلہ وار کھیل یا ڈراموں میں خواتین اداکاری کرتی ہیں، ان کی نشریات کو فوری طور پر معطل کر دیا جائے۔
خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں میں شرکت کرنے والی ویمن جرنلسٹس حجاب پہن کر کیمروں کے سامنے آئیں۔ ایک سینیئر طالبان اہلکار کا کھیلوں میں خواتین کی شرکت کو غیر اہم قرار دیا ہے لیکن انہیں بین الاقوامی سطح پر مالی امداد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہو گا، اگر وہ کھیل میں خواتین کی شرکت محدود کرتے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے قریب قریب سبھی نمایاں گلوکار، موسیقار، فنکار اور فوٹوگرافر طالبان کی واپسی کے وقت ملک چھوڑ چکے ہیں۔ فنون لطیفہ سے منسلک جو باقی بچے کھچے افراد ملک میں رہ گئے ہیں، وہ روپوشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔