طالبان کو تسلیم کرنے کا معاملہ: بھارت کا اولین اشارہ

Taliban

Taliban

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی صدارت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیان سے دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کا نام حذف کر دیا گیا ہے۔ اس پیش رفت کو بھارت کی جانب سے بھی طالبان کو تسلیم کرنے کی سمت پہلا اشارہ سمجھا جارہا ہے۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دو ہفتے سے بھی کم وقت میں اس عسکریت پسند تنظیم کے حوالے سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے موقف میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔بھارت نے سلامتی کونسل کے موجودہ صدر کے طور پر اس بیان پر دستخط کر دیے، جس میں دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کا نام حذف کر دیا گیا ہے۔

سفارتی تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارت سمیت بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس بات کا پہلا اشارہ ہے کہ وہ طالبان کو اب اچھوت نہیں سمجھتی ہے۔ بلکہ طالبان کو اب ایک اسٹیٹ ایکٹر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں بھارت کے سابق مستقل نمائندے سید اکبر الدین نے اس اہم پیش رفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا،”سفارت کاری میں دو ہفتے کا وقت بہت زیادہ ہوتا ہے۔T لفظ غائب ہے۔ 16 اگست اور 27 اگست کے بیانات کا موازنہ کیجیے۔”

بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کے بیان پر دستخط بدلتے ہوئے ‘زمینی حقائق‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ اور طالبان کی مدد سے ہی 17اگست کو بھارتی سفارت خانے کے تمام اسٹاف کو کابل سے نکالا گیا تھا۔

سقوط کابل کے ایک دن بعد 16 اگست کو اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا،”سلامتی کونسل کے اراکین نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ افغانستان کے کسی بھی علاقے کو کسی بھی ملک کو دھمکانے یا اس پر حملہ کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے حتی کہ طالبان یا کسی بھی افغان گروپ یا کسی بھی شخص کو کسی دیگر ملک میں سرگرم دہشت گردی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔”

کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد بھارت نے سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر جو مذمتی بیان جاری کیا وہ گو کہ 16 اگست کو جاری کردہ درج بالا بیان سے تقریباً مماثل ہے تاہم اس میں سے طالبان کا لفظ حذف کر دیا گیا ہے۔ اس حملےمیں 13 امریکی فوجیوں سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بھارتی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعدادشمار کے مطابق افغانستان سے اب تک 565 افراد کو بھارت لایاجا چکا ہے۔ ان میں 175 بھارتی سفارت خانے سے تعلق رکھنے والے اور 263 دیگر بھارتی شہری ہیں۔ جبکہ 112 ہندو اور سکھ افغان شہریوں کے علاوہ تیسرے ممالک کے 15 افراد کو بھی بھارت لایا جا چکا ہے۔

ایک بھارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر طالبان ہماری مدد نہیں کرتے تو ان سب کو وہاں سے محفوظ طور پر نکالنا ممکن نہیں تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گوکہ بھارت نے سلامتی کونسل کے دیگر اراکین کی طرح طالبان کے ساتھ بات چیت شروع نہیں کی ہے لیکن سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے بیان پر دستخط کرتے ہوئے بھارت نے طالبان کے ساتھ رابطے بحال رکھنے کا اشارہ دے دیا ہے۔

27 اگست کو جو بیان جاری کیا گیا ہے گو کہ اس میں دہشت گردی کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال تو کیا گیا ہے لیکن اس کے لیے طالبان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری کنول نے اس پیش رفت پر ٹوئٹ کر کے کہا،”یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ امریکا، جس نے سلامتی کونسل کے بیان کے لیے زور دیا تھا، خود بھی طالبان کو ہوائی اڈے پر حملے کے الزام سے بری کر چکا ہے اور اس کے لیے داعش (خراسان) کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ‘T‘ امریکی سکیورٹی فورسز کو نکلنے میں تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ امریکا T کی تعریف کر رہا ہے حالانکہ طالبان اسے چکمہ دے چکے ہیں۔”

بھارتی صحافی اور سفارتی امور کی ماہر سہاسنی حیدر نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا،”سلامتی کونسل میں بھارت کی صدارت میں دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کا نام حذف کر دیا گیا۔ اب دیکھنا ہے کہ بھارت کی صدارت میں طالبان پر پابندی عائد کرنے والی کمیٹی کے اجلاس میں کیا ہوتا ہے۔ یہ دیکھنا اور بھی اہم ہو گا۔”

طالبان کے بیان پر بھارت کی خاموشی
تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ بھارت اپنے داخلی سیاسی معاملات بالخصوص اترپردیش میں اگلے برس ہونے والے اہم اسمبلی انتخابات کی وجہ سے طالبان کے حوالے سے کھل کر کوئی بات کہنے سے گریز کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے طالبان کے اہم رہنما شیر محمد ستانکزئی کی طرف سے’امن کے اشارے‘ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

طالبان کے سات اہم رہنماؤں میں سے ایک ستانکزئی نے ہفتے کے روز بھارت کو ‘اس خطے کے لیے نہایت اہم‘ قرار دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا،”بھارت اس خطے کے لیے بہت اہم ہے اور ہم اس کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ پہلے جیسے ہی تعلقات برقرار رہیں گے۔”

ستانکزئی کے اس بیان کو طالبان کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا واضح اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے اس پر اب تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ستانکزئی نے بھارت کے انڈین ملٹری اکیڈمی، دہرہ دون سے سن 1980کی دہائی میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ 1996ء میں جب طالبان نے کابل پر پہلی مرتبہ قبضہ کیا تھا تو اس وقت بھی نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔بھارت فی الحال ‘انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔