اسلام آباد (جیوڈیسک) نیٹو فورسز کے ہیڈ آف افغانستان آپریشن کے سربراہ نک ولیمز کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ نیٹو سے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی یہ فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے۔
2014ء کے بعد پاکستان اور نیٹو کے درمیان ممکنہ شراکت کے حوالے سے اسلام آباد میں بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں افغانستان آپریشن کے سربراہ نک ولیمز کا کہنا تھا کہ نیٹو افواج کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے پاکستان میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کا قطعایہ مطلب نہ لیا جائے کہ افغانستان میں نیٹو کا کردار ختم ہو گیا ہے اگر افغانستان کی حکومت نے رضا مندی ظاہر کی تو ہمارے 12000 دستے افغان فوج کی تربیت کے لیے موجود رہیں گے۔
صحافیوں اور ارکان پارلیمنٹ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے نک ولیمز کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ نیٹو سے کیسے تعلقات چاہتا ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
نیٹو خود مختار ریاستوں کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔ نیٹو عہدیدار ان کا کہنا تھا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور فوج کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ 2014ء کے بعد نیٹو شفاف انداز میں افغان فوج کی تربیت کرے گی جس میں بھارت یا کسی اور ملک کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
نیٹو افواج کی طرح بھارت اور پاکستان کو بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے شفاف اور نیک نیتی پُر مبنی کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان ایک مستحکم اور پُر امن افغانستان کا خواہاں ہے افغان صدر حامد کرزئی کا پاکستانی حکومت اور اس کی افغانستان سے متعلق پالیسی پر اعتماد اطمینان بخش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014ء کے بعد نیٹو فورسز کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔
کانفرنس میں نیدرلینڈ، فرانس اور یونان کے سفیروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات نہایت اہم ہیں۔ کانفرنس میں نسرین جلیل، افراسیاب خٹک، فرحت اللہ بابر، عائشہ گلالئی اور ماروی میمن سمیت کئی ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔