اسلام آباد (جیوڈیسک) عسکریت پسندوں کو ہتھیاروں سے دینی ہے مات یا کرنے ہیں مذاکرات، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کیا بنائی جائے، بات چیت کس سے کی جائے گی، مذاکرات کون کرے گا، ملک میں امن کی ضمانت کون دے گا اور یہ ضمانت کن شرائط سے مشروط ہوگی، ان چبھتے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہان اور ملکی عسکری قیادت آج صبح گیارہ بجے سر جوڑ کر بیٹھے گی۔
کل جماعتی کانفرنس میں چاروں وزرائے اعلی کے ساتھ ساتھ گورنر خیبر پختونخوا کو بھی خصوصی دعوت دی گئی ہے، تاہم اس اجلاس میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور مسلم لیگ ضیا کے رہنما اعجاز الحق کو دعوت نامے نہیں بھجوائے گئے، ذرائع کے مطابق آل پارٹیز کا نفرنس کا آغاز وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب سے ہوگا، جس کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ظہیر الاسلام کانفرنس کے شرکا کو قومی سلامتی کے معاملات اور دہشت گردی کے چیلنجز پر بریفنگ دیں گے، جبکہ کانفرنس میں شرکا کا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا جائے گا۔
کئی گھنٹوں تک چلنے والی ان کیمرہ کانفرنس بند کمرے میں منعقد کی جائے گی ، جس میں کیمرے والوں کو کوریج کی اجازت نہیں ہوگی، کانفرنس میں لیے گئے فیصلوں پر بھی میڈیا کو بریفنگ نہیں ملے گی بلکہ کانفرنس کی سفارشات سے تحریری طور پر آگاہ کردیا جائے گا، ایک ایسے وقت میں جب ملک کو دہشت گردی انتہا پسندی کے عفریت کا سامنا ہے۔
اس اہم ترین کانفرنس کے فیصلے روشن مستقبل کے تعین میں کلیدی کردار ادا کریں گے یا یہ بیٹھک بھی گزشتہ دو بیٹھکوں کی طرح نشستند، گفتند اور برخاستند پر برخاست کر دی جائے گی۔