واشنگٹن (جیوڈیسک) پاکستانی حکومت کے طالبان سے مذاکرات کے دوران امریکا نے ڈرون حملوں میں واضح کمی کا اعلان کیا ہے تاہم اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی قیادت جہاں بھی ہوئی اس کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔
دوسری جانب ہاؤس آف انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ڈرون حملے محدود کرنے کی پالیسی پر چراغ پا ہو گئے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ نے پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے موقع پر ڈرون حملوں میں کمی حکومت پاکستان کی درخواست پر کی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں کمی کا منصوبہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کے بعد سے ہی زیر غور تھا جس پر عملدرآمد طالبان سے دوبارہ مذاکرات شروع ہونے کے موقع پر کیا جا رہا ہے تاہم ڈرون حملوں میں کمی کسی معاہدے کے بغیر ہی کی جا رہی ہے۔
امریکی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ دوسری طرف ہاؤس آف انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ نے ڈرون حملے محدود کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مائیک روجر کا کہنا ہے کہ اوباما کی دو ہزار تیرہ کی ڈرون حملے محدود کرنے کی پالیسی سے امریکی شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جبکہ ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جس سے امریکا محفوظ ہو سکے۔