کراچی (جیوڈیسک) محمد رفیق مانگٹ امریکی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے پشاور چرچ دھماکے کے بعد طالبان سے بات چیت کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق پشاور میں چرچ میں مہلک ترین دھماکے میں 83 افراد ہلاک ہو گئے۔
جس کے بعد نواز شریف نے عسکریت پسند باغیوں کے ساتھ غیر مشروط امن مذاکرات کی منصوبہ بندی ختم کردی ،رپورٹ کے مطابق نواز واضح طور پر اس صورت حال سے پریشان دکھائی دیئے انہوں نے کہا کہ ہم نے نیک نیتی سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی لیکن ا س حملے کی وجہ سے حکومت مزید پیش رفت سے قاصر ہے۔
نواز شریف کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ امن بات چیت کی راہ کی کوئی امید نہیں، انہوں نے عسکریت پسندوں کو پاکستا ن کا دشمن قراردیا۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے، بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانا اسلامی تعلیمات اور عقائد کے منافی ہے، رپورٹ کے مطابقجب سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے نواز شریف کو طالبان سے مذاکرات کا اختیار دیا گیا اس وقت سے طالبان نے حملوں میں اضافہ کردیا۔
بظاہر لگتا ہے کہ بات چیت کی تجویز کو نواز حکومت کی کمزوری اور فوج کے درمیان تقسیم کے طور پر لیا گیا۔طالبان رہنما حکیم اللہ محسود نے حملوں میں تیزی کا حکم دیا اور14ستمبر کو انہوں نے حکومت کے سامنے 50 عسکریت پسند کمانڈروں کی رہائی اور فاٹا سے فوج کی واپسی کی دو شرائط رکھ دیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ میجر جنرل ثنا اللہ نیازی کی شہادت 2007 کے بعد طالبان کی سب سے بڑی کارروائی تھی اس واقعے نے نواز اور فوج کے درمیان تناو پیدا کیا۔میجر جنرل ثنا اللہ نیازی کی شہادت نے پاکستانی عوام اور خصوصاپنجاب میں غم و غصے کی لہر پید اکی۔
چرچ حملے نے پاکستانی قوم کو شدید رنجیدہ کر دیا ہے، 20 کروڑ کی آبادی میں صرف دو فی صد عیسائی کمیونٹی ہے لیکن اس سانحے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ان کے ساتھ کھڑی نظر ا ئی۔ پشاور دھماکے کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ نواز شرف فوج کو شمالی وزیر ستان میں کارروائی کا حکم دیں۔