افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اجازت طلب کی ہے۔ ادھر چینی اور امریکی صدر نے اپنے خطاب میں مذاکرات اور سفارت کاری پر زور دیا۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت میں وزیر خارجہ عامر خان متقی نے پیر کے روز سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہے۔ اس معاملے پر اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی جلد ہی فیصلہ کرے گی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس بار طالبان کو شاید اس کا موقع نہ مل پائے۔
طالبان نے صدر اشرف غنی کے دور میں اقوام متحدہ کے لیے افغان سفیر غلام اسحاق زئی کو برطرف کر دیا تھا اور دوحہ میں مقیم اپنے ایک ترجمان سہیل شاہین کو اپنا نیا سفیر مقرر کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے غلام اسحاق زئی کو ابھی تک ہٹایا نہیں ہے اور انہوں نے بھی خطاب کے لیے درخواست دی ہے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفین جارک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کو طالبان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی، ”اعلی سطحی بحث میں حصہ لینے کی گزارش کی ہے۔”
ان کے مطابق اس مکتوب پر 20 ستمبر کی تاریخ درج ہے جو جنرل اسمبلی کے اجلاس شروع ہونے سے ایک روز قبل کی بات ہے۔ اسی خط میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ غلام اسحاق زئی اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور ان کی جگہ سہیل شاہین نئے سفیر مقرر کیے گئے ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفین جارک نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران سکریٹری جنرل کو غلام اسحاق زئی کی جانب سے بھی ایک خط ملا ہے جو پندرہ ستمبر کو لکھا گیا تھا اور اس میں انہوں نے بھی اقوام متحدہ سے خطاب کی بات کہی ہے۔ ترجمان کے مطابق اس معاملے پر ایک نو رکنی کمیٹی کو فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان کا حقیقی سفیر کون ہے۔ اس کمیٹی میں امریکا، چین اور روس جیسے ممالک شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اختتام سے قبل مذکورہ کمیٹی کی ملاقات اور فیصلہ ممکن نہیں ہے اس لیے غالب امکان اس بات کا ہے کہ اس بار بھی غلام اسحاق ہی شاید اس اجلاس سے خطاب کریں گے، جو سابق صدر عبد الغنی کی حکومت کے مقررہ کردہ سفیر ہیں۔
ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق غلام اسحاق زئی اجلاس کے آخری دن یعنی 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کر سکتے ہیں، حالانکہ طالبان کو یہ قطعی منظور نہیں ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ سن 1996 سے 2001 کے دوران جب طالبان افغانستان پر پہلی بار قابض ہو ئے تھے اس وقت جس حکومت کو انہوں نے برطرف کیا تھا اس کے سفیر کو اقوام متحدہ کا سفیر اس طرح برقرار رکھا گیا تھا کہ کمیٹی نے اس پر فیصلہ موخر کر دیا تھا۔
اس دوران قطر کے فرما روا شیخ تمیم بن حماد الثّانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس بات زور دیا کہ دنیا کے تمام رہنماؤں کو طالبان سے رابطہ منقطع کرنے کے بجائے ان سے روابط بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”ان کا بائیکاٹ محض پولرائزیشن اور رد عمل کا باعث بنے گا، جبکہ بات چیت ثمر آور ثابت ہو سکتی ہے۔” واضح رہے کہ قطر نے ہی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے گزشتہ برس امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا معاہدہ طے ہو پا یا تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس کے آغاز پر حسب معمول سب سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے خطاب کیا۔ بطور صدر جو بائیڈن کا یہ پہلا خطاب تھا جس میں انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے بحران، ماحولیات کی تبدیلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے موضوعات پر بات چیت کی۔
انہوں نے دنیا کے دیگر رہنماؤں سے مختلف مسائل پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر زور دیتے ہوئے تنازعات کے حل کے لیے فوجی کارروائی کے بجائے سفارت کاری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ”امریکا کوئی نئی سرد جنگ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جہاں کہیں بھی ضرورت پڑے گی امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو گا۔”
جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا، ”ہم دنیا بھر میں لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اپنی ترقیاتی امداد کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نئے طریقوں سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے سفارت کاری کے جہد مسلسل کے ایک نیا دور کا آغاز کر رہے ہیں۔”
انہوں نے موسم اور ماحولیات کی تبدیلی پر کافی زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنی امداد دوگنا کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کا انتخاب کریں گے۔ ہم سب مل کر اسے بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب اس سمت میں مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا۔”
چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا ملک موجودہ عالمی تنازعات کو ”بات چیت اور تعاون سے حل کرنے کے لیے کثیرالجہتی نظریے کی تلاش میں ہے۔ ہمیں محاذ آرائی اور الگ تھلگ رکھنے کے بجائے مکالمے اور شمولیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔”
شی جن پنگ نے بھی ماحولیات کی تبدیلی کے حوالے سے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ بھی گرین انرجی کے حصول میں غریب ممالک کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”دنیا اتنی بڑی ہے کہ تمام ممالک کی مشترکہ ترقی اور پیش رفت کو ایڈجسٹ کر سکتی ہے۔”
ترک صدر طیب ایردوآن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترکی بھی ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ہے۔