تحریر : محمد اشفاق راجا وزیراعظم نواز شریف لندن پہنچ چکے ہیں۔ وہ اپنی مصروفیات کے باعث یہ معائنہ ملتوی کرتے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے لاہور میں اتفاق ہسپتال میں بھی معائنہ کرایا اور غالباً اسی لیے اپنا تھر اور کراچی کا دورہ ملتوی کیا اور ترکی بھی نہ جاسکے جہاں او آئی سی کا سربراہی اجلاس ہونا تھا۔ اب صدر مملکت ممنون حسین اس اجلاس میں شریک ہیں۔ وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کو پہلے سے اندازہ تھا کہ یار لوگ اس سلسلے میں دور دور کی کوڑیاں لائیں گے اس لیے انہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں خاص طور پر کہہ دیا تھا کہ نوازشریف کے دورہ لندن کے بارے میں قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے لیکن قیاس کے گھوڑے دوڑائے گئے اور خوب دوڑائے گئے۔
دوپہر کے اخبارات تو ہوتے ہی اس کام کیلئے ہیں، ان کی خبروں کی صحت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جو اخباری ادارے دوپہر کے یہ اخبارات نکالتے ہیں وہ بھی ان کی خبروں کو اپنے صبح کے اخبارات میں کیری نہیں کرتے۔ بہرحال یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ وزیراعظم لندن میں آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے، حالانکہ ایسا کوئی پروگرام کم از کم وزیراعظم کی طرف سے سامنے نہیں آیا تھا تاہم آصف علی زرداری نے اعلان کردیا کہ وہ نوازشریف سے نہیں ملیں گے۔
آج کے دور میں جہاں آف شور کمپنیاں خفیہ نہیں رہ پائیں اور کبھی نہ کبھی انہیں کوئی نہ کوئی لیک کردیتا ہے وہاں اگر نوازشریف، زرداری کو ملنے جائیں گے یا بقول اعتزاز احسن ”ان کے پاؤں پکڑنے جائیں گے” تو کیا یہ خفیہ رہ پائے گی؟ اگر نوازشریف کا تھوڑا بہت ارادہ ”زرداری کے پاؤں پکڑنے” کا تھا بھی تو اعتزاز احسن نے یہ ”راز” قبل از وقت ”افشا” کرکے اس کا امکان بھی ختم کردیا ہے۔
Aitzaz Ahsan
ویسے سیاستدانوں کا آپس میں ملنا ملانا کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس پر اس انداز میں تبصرہ کیا جائے جس طرح اعتزاز احسن نے کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت تمام سیاستدانوں کے بارے میں فقرے چست کرتے رہتے تھے، اصغر خان کو انہوں نے ”آلو” کہا، میاں ممتاز دولتانہ کو ”چوہا” کہہ کر مخاطب کیا، وہ حکومت میں اپنے حلیف اور وفاقی وزیر خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، مولانا مودودی کو انہوں نے ”اچھرے کا پوپ” کہا لیکن اچھرے کے اس پوپ کی عالی ظرفی دیکھیے کہ جب قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھٹو نے انہیں ملنا چاہا تو انہوں نے خوش دلی سے ملاقات پر رضامندی ظاہر کی اور جب مولانا مودودی کی رہائش والی گلی میں نوجوان جمع ہوکر بھٹو کے خلاف نعرے لگانے لگے تو مولانا نے اندر سے یہ پیغام بھجوایا کہ ہم اپنے مہمانوں کا استقبال مخالفانہ نعروں سے نہیں کرتے۔
بہرحال یہ ”فکر ہر کس بہ ہمت او است” والی بات ہے۔ نوازشریف اگر زرداری کے پاؤں پکڑنے جا رہے ہیں تو وہ اپنے حامیوں اور مخالفوں کو جواب دہ ہیں، نہیں جا رہے تو اعتزاز احسن کو اپنے الفاظ کے حسن انتخاب پر ازسرنو غور کرنا چاہئے۔ جنہوں نے خود ہی ایک ”مصرع طرح” منتخب کرکے اس پر پوری ”غزل” کہہ دی ہے۔ ہم تو صرف یہ عرض کر رہے تھے کہ سیاستدانوں کی آپس کی ملاقاتیں کوئی ایسا انوکھا واقعہ نہیں ہوتا۔ خود آصف علی زرداری جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملنے منصورہ چلے گئے تھے۔ اور تو اور ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور ان کے ساتھی بھی ایک زمانے میں سید منور حسن اور دوسرے رہنماؤں کو ملنے منصورہ گئے تھے۔ محض ملاقاتوں کا ذکر شروع کردیا تو تجزیے کی گنجائش کم ہو جائے گی، اس لیے یہ سلسلہ روک کر آگے بڑھتے ہیں۔
بعض قیاس آرائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ٹی وی چینلوں سے سن کر حیرت ہوتی ہے کہ جن صحافیوں نے اپنی ساری عمر اس شعبے میں گزار دی وہ بھی اس طرح کی پیش گوئی کرتے ہوئے اس کے عواقب پر شاید غور ہی نہیں کرتے۔ مثلاً ایک پروگرام میں کہا گیا کہ نوازشریف استعفا دے کر شہباز شریف کو (فوری طور پر) وزیراعظم بناسکتے ہیں، حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ وزیراعظم بننے تک بہت سے مراحل بلکہ ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ ہیں، انہیں اگر وزیراعظم بنانا ہے تو پہلے پنجاب کا تمام سیٹ اپ بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ پہلے وہ یہ عہدہ چھوڑیں گے اور چھوڑنے سے قبل یہ منصوبہ بندی کرنا پڑے گی کہ پارٹی میں کونسا رہنما یہ عہدہ سنبھالے گا۔ پھر اسے ضمنی الیکشن میں پہلے ایم پی اے منتخب کرانا پڑے گا تب جاکر وہ وزیراعلیٰ بن پائے گا پھر اس دوران یہ عہدہ خالی تو نہیں رہ سکتا، دو ماہ کیلئے کوئی وزیراعلیٰ بنانا پڑے گا جس طرح شہباز شریف سے پہلے دوست محمد کھوسہ کو بنایا گیا تھا۔
Shahbaz Sharif
اب اگر یہ قیاس آرائی درست ہے کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا مقصود ہے تو پہلے نوازشریف استعفیٰ دیں، اپنی جگہ قومی اسمبلی میں سے کسی ایک رکن کو وزیراعظم (قائد ایوان) منتخب کرائیں اور اس دوران شہباز شریف کسی ایک نشست پر، جو خالی ہو یا خالی کرائی جائے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور اگر کامیاب ہوکر رکن بن جائیں تو پھر بھی قومی اسمبلی کا اختیار ہے کہ وہ انہیں اپنا قائد ایوان منتخب کرتی ہے یا نہیں، پھر استعفے کے بعد اور نئے قائد ایوان کے انتخاب تک کون یہ عہدہ سنبھالے گا؟ یہ بھی بہت بڑا سوال ہے، لیکن یہ تمام سوالات ایک مفروضے سے پیدا ہوتے ہیں ”اگر” وزیراعظم استعفا دیں تو، لیکن کیا یہ مفروضہ محض اس لئے قائم کرلیا جائے کہ چند لوگوں نے یہ مطالبہ کر رکھا ہے؟ اور بعض جواریئے استعفے پر شرطیں لگائے بیٹھے ہیں اور دوسروں کی جیبیں خالی کرانے کا بہانہ تراش رکھا ہے؟
ویسے اگر افواہیں ہی اڑانی ہیں تو پھر یہ افواہ اڑانے میں کیا حرج ہے کہ وزیراعظم کی عمران خان سے لندن میں ملاقات متوقع ہے۔ متوقع کیا طے ہے کیونکہ عمران خان بھی تو فنڈ ریزنگ کیلئے لندن جانے والے ہیں، جن کے بارے میں ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ دراصل جمائما خان کے بھائی کی انتخابی مہم کیلئے جا رہے ہیں، جو لندن کے میئر کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یار لوگوں نے تو ان ”اتفاقات” کو ایک نئے لندن پلان کا نام پہلے سے دے رکھا ہے، حالانکہ نہ ایسی کسی ملاقات کا شیڈول طے ہے اور نہ امکان، وزیراعظم اپنے پروگرام کے مطابق لندن جا رہے ہیں اور عمران خان کا اپنا پروگرام ہے۔ آصف زرداری بھی اگر اس وقت لندن میں ہیں تو وہ بھی اپنے کسی پروگرام کے تحت ہی آئے ہوں گے، لیکن جس طرح شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی ہوائی اڑائی جا رہی ہے اسی طرح ملاقات کا شوشہ بھی چھوڑ دیا گیا ہے اور اس مصرع طرح پر کوئی گرہ لگا رہا ہے تو کوئی اعتزاز احسن کی طرح پوری غزل کہہ رہا ہے۔
آصف علی زرداری نے اپنی ”مفاہمت کی سیاست” کے دوران کئی روپ بدلے، 2008ء کے الیکشن کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو اپنی جماعت کی حکومت میں شریک کیا۔ مری میں معاہدہ کیا تو کہا کہ اب سیاسی تعلقات اگلی نسل تک چلیں گے، لیکن زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت سے الگ ہونے پر مجبور ہوگئی اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ختم کرکے گورنر راج لگا دیا گیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب آصف زرداری نے رائیونڈ میں وزیراعظم سے ملاقات کی تھی، اب اگر ملاقات نہیں ہو رہی تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آئندہ بھی کبھی ملاقات نہیں ہوگی، سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں تو اس کے سینے میں بھی دل ہیں ہوتا ہے۔