اسلام آباد (جیوڈیسک) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنی حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لیے ماحول پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے افغانستان میں امن کی حتمی راہ متعین کرنے کے مشکل عمل کے آغاز کے لیے حمایت و یکجہتی کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کو افغان دارالحکومت میں ‘کابل پراسیس’ کے نام سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ ’’دو طرفہ، سہ فریقی، چار فریقی اور کثیرالجہتی مذاکراتی عمل شروع کیے جانے کے باوجود افغانستان میں تنازعات اور دہشت کا خاتمہ نہیں ہوا‘‘۔
انھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اس گروپ کی نمائندگی کون کرتا ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، طالبان کی تشدد پر مبنی کارروائیوں نے بین الاقوامی دہشت گردوں کو موقع فراہم کیا ہے اور حکومت کی طالبان سے بات چیت کا موقع بغیر کسی حد کے نہیں ہوگا۔
صدر غنی کا کہنا تھا کہ طالبان کو بات چیت سے قبل تشدد میں کمی لانا ہوگی۔
انھوں نے بتایا کہ گزشتہ بدھ کو کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150 تک پہنچ گئی ہے۔
اس بم دھماکے میں 400 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے تھے اور ہلاکتوں کی اس تازہ تعداد کے ساتھ یہ دارالحکومت کابل میں 2001ء کے بعد ہونے والا سب سے مہلک بم دھماکا ثابت ہوا ہے۔
کانفرنس میں پاکستان سمیت 24 ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندے شریک ہوئے۔
افغان صدر نے ایک بار پھر پاکستان کو افغانستان میں امن و سلامتی کے سلسلے میں مذاکرات کا اپنا ایجنڈا تجویز کرنے کا کہتے ہوئے کہا کہ وہ خطے میں سلامتی سے متعلق پاکستان کے مفادات کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن، ان کے بقول، ’’کوئی ملک بھی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی یا دہشت گردوں کی میزبانی سفارتکاری کا قابلِ قبول طریقہٴ کار ہو سکتا ہے‘‘۔
افغانستان اپنے ہاں ہونے والے دہشت گرد واقعات کا الزام پاکستان میں موجود دہشت گردوں پر عائد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان ان عناصر کے خلاف موٴثر کارروائی نہیں کر رہا، جو اس کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔
تاہم، پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ موٴقف پیش کرتا ہے کہ پُرامن افغانستان خود اُس کے مفاد میں ہے اور وہ افغانوں کی زیرقیادت اور ان کی شمولیت سے ہونے والے امن عمل کی مکمل حمایت کے اپنے عزم پر قائم ہے۔
دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار سید نذیر کہتے ہیں کہ جنگ اور لڑائی کے ذریعے طالبان افغانستان پر تسلط نہیں جما سکتے اور نہ ہی اس طرح افغان حکومت ملک میں اپنی مکمل عمداری کو یقینی بنا سکتی ہے۔ لہذا، بات چیت کا راستہ ہی تلاش کرنا ہوگا جس میں، ان کے بقول، کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ اختیار کرنا پڑے گا۔
سید نذیر نے مزید کہا کہ،”طالبان افغانی ہیں، افغان حکومت بھی افغانی ہے جب تک آپس میں بیٹھیں گے نہیں اس (تنازع کا) سیاسی حل نہیں ڈھونڈیں گے، کیونکہ طالبان ایک سیاسی قوت ہے پاکستان بھی امریکہ بھی چین بھی اور روس بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور اگر، وہ ایک سیاسی قوت ہیں اور ساتھ ہی ایک عسکری قوت بھی، تو ان کے ساتھ اگر مذاکرات کا رستہ بنتا ہے یا بنانا ہے تو کچھ لو اور کچھ دو تو کرنا پڑے گا۔”
ان کا کہنا تھا کہ ’کابل پراسیس‘ میں افغان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کا عزم اور انسداد دہشت گردی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے وعدے تو ہوں گے ہی۔ لیکن، اس معاملے میں اصل فریق افغان حکومت اور طالبان ہیں اور اس میں پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔