مذاکرات کیا رنگ لائیں گے

 Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کمیٹی با اختیار ہے۔ اُن کے اس بیان کی تصدیق وزیرداخلہ چوہدری نثار کا بیان بھی کرتا ہے جس میں اُنہوں کہا کہ مذاکراتی کمیٹی جو فیصلے کریگی قبول کر لیں گے لیکن تحریک طالبان پاکستان کی منتخب کمیٹی کے اہم رکن مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بے بس ہیں تو کمیٹی کے پلے کیا ہو گا؟ جس کے جواب میں حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی جو وزیراعظم پاکستان کے مشیر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ تمام خدشات دور کر دیں گے۔

حالت جنگ میں دو فریقوں کے ایک دوسرے پر شک و شبہات اور خدشات فطری سی بات ہے لیکن مذاکرات کی کامیابی کیلئے دونوں کو اعتماد کی فضا قائم کرنا ہو گی۔ بے بنیاد خبروں اور مشوروں پر کان دھرنے کی بجائے اگر قیام امن کے امکانات پر غور کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

ایک اہم بات یہ کہ حکومت پاکستان آئین پاکستان کی محافظ اور اُس پر عمل درآمد کی ذمہ دار جبکہ بقول مولانا سمیع الحق طالبان آئین پاکستان کے نفاذ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر دونوں فریق ہی آئین پاکستان کی بات کرتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنگ کی کیا وجہ ہے؟ عوام اس انتظار میں ہیں کہ جلد از جلد مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہواور اُن کو جینے کا حق حاصل ہو۔پر امن پاکستان نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کیلئے فائدہ مند ہو گا۔

اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ قیام امن میں حکومت پاکستان کا بھر پور ساتھ دے اور نہ صرف ڈرون بلکہ دہشتگردی کے خلاف جنگی پالیسی میں پاکستانی مشاورت کو بہتر انداز میں شامل کیا جائے۔ اخبارات کی بجائے امریکی انتظامیہ با اعتبار ذرائع سے اپنے موقف کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرے۔ جیسا کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اُوباما انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کی درخواست کے بعد، پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کو بہت حد تک محدود کر دیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان کی درخواست پر ایک امریکی اہلکار کا حوالے سے بتایا ہے کہ۔اُنھوں (پاکستان) نے یہی مانگا اور ہم نے نفی میں جواب نہیں دیا۔ امریکی انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سامنے آنے والے القائدہ سینئر رہنمائوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور امریکہ کسی بھی براہ راست خطرے کو ٹالنے کے لئے اقدام اُٹھائے گی۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے گزشتہ سال دسمبر سے ڈرون حملوں میں وقفے کی وجہ پاکستان کے سیاسی خدشات ہیں۔2011ء میں پاکستان کے سلالہ چیک پوسٹ پر فضائی حملے کے بعد ڈرون حملوں میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے وقفے کے بعد ڈرون حملوں میں یہ سب سے طویل وقفہ ہے۔

Drone Attacks

Drone Attacks

ڈرون حملوں میں کمی کی ایک وجہ نومبر میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت بتائی جاتی ہے جبکہ اُس وقت پاکستان حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں ابتدائی مرحلے میں تھیں۔ اس ڈورن حملے کے بعد تحریک طالبان نے مذاکرات سے انکار کر دیا اور پاکستان نے مذاکراتی عمل کو سبوتاز کرنے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی تھی۔

رپورٹ میں ایک سینئر امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ابھی امریکہ نے ڈرون حملوں کی پالیسی تبدیل کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ڈرون حملوں کو محدود کرنے کا کوئی غیر رسمی معاہدہ کیا گیا ہے، مزید یہ کہ طالبان کے ساتھ مذ اکرات کا معاملہ مکمل طور پر پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے یہ اس خبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔ میڈیا میں بڑا مقام پانے والی خبر میں امریکی انتظامیہ کے کسی ذمہ دار عہدیدار کا زکر ہے اور نہ ہی حکومتی موقف ظاہر کیا گیا ہے بلکہ موضوع کی نزاکت کی وجہ سے یہ ساری معلومات فراہم کرنے والے سینئر امریکی اہلکار کا نام بھی خبر میں شائع نہیں کیا گیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے والے اہلکار نے بھی بڑے محتاط انداز میں بات کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ہے کہ ہم نے نفی میں جواب نہیں دیا جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے ڈرون حملوں میں کمی کا کوئی وعدہ کیا ہے اور نہ پالیسی تبدیل کی ہے جبکہ پاکستان ڈرون حملوں میں کمی نہیں بلکہ مکمل بندش کا مطالبہ کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میںواشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس خبر کے حوالے سے کئی طرح کے شک و شبہات جنم لیں گے۔ یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے جب امریکہ نے پاکستان کو ڈرون حملے نہ کرنے کا عندیہ دیا ہو لیکن یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ماضی کی طرح اس عندیے کو یقین دہانی قرار نہیں دیا بلکہ ڈورن حملوں میں کمی کی بجائے مکمل بندش کی بات کی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی خبر میں یہ بات بہت واضع طورپرتحریر ہے کہ امریکہ افغانستان کے میدان جنگ اور اس کے اطراف میں متحرک دشمن کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔ خبر میں اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں قیام امن یا طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمائت میں اپنی پالیسی تبدیل کرلی یا کرنے پر کسی قسم کا غور کیا جا رہا۔ ایک ایسی خبر جس میں امریکہ نے اپنی ڈرون پالیسی کو تبدیل نہ کرنے مضبوط ارادہ ظاہر کیا کو موضوع بنا کر یہ شور برپا کرنا کہ امریکہ نے حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے کم کرے گا، اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتنا کہ صرف ایک ڈرون حملہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس لئے بہتر ہو گا اگر حکومت اور تحریک طالبان میڈیا مذاکرات کی بجائے جلد از جلدسنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی کوشش کریں۔ اب تک کی غیر یقینی صورتحال میں شروع ہونے والے مذاکرات کیا رنگ لاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن یہ بات بہت واضع ہو چکی ہے کہ پاکستان کے عوام مذاکرات کے ذریعے قیام امن کے شدید حامی ہیں۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:کاہنہ لاہور
imtiazali470@gmail.com