اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کا تلور کے شکار پر پابندی کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ جو لوگ شکار کرتے ہیں وہ افزائش نسل بھی کر رہے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وفاق کی درخواست کی سماعت کی، عدالت نے فاروق ایچ نائیک کو سندھ حکومت کی نمائندگی کرنے کی اجازت دیدی۔ عدالت نے تلور کے شکار پرپابندی عبوری طور پر ہٹانے کی وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے جبکہ فاروق ایچ نائیک کو سندھ حکومت کی نمائندگی کرنے کی اجازت دیدی ۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ تلور کے معاملے پرلارجر بینچ بنانا زیادہ مناسب ہو گا اس لیے معاملہ پر لارجر بینچ بنانےکے لیے چیف جسٹس کو بھجوایا جا رہا ہے۔
قبل ازیں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عبوری طور پر تلور کے شکار پر پابندی کو ہٹا دے، پرمٹ جاری کرنے سے نایاب پرندوں کو تحفظ ہوسکے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شکار کی اجازت پانے والے تلور کی افزائش بھی کرتے ہیں ہمارے پاس تلور کی تعداد بڑھنے کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کہیں یہ اعداد و شمار گھر بیٹھے تو نہیں بنائے،اٹارنی جنرل نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جو آپ سے سیکھا وہی کر رہے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق تلور کی تعداد بڑھی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، سندھ کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت یہ بھی دیکھے کہ تلور پرندے کی نسل کو خطرہ ہے بھی یا نہیں۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب رزاق مرزانے کہا کہ عدالت نے پنجاب حکومت کے تلور کے شکار سے متعلق قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا، پنجاب قانون کے تحت شکار کے پرمٹ ابھی بھی جاری کئے جا سکتے ہیں اور اس کے لیے قانون بھی موجود ہے، پرمٹ پر پابندی لگا دی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں عدم مطابقت ہے لہذا قانون کے مطابق پرمٹ جاری کر دیئے جائیں۔