اَب ٹامک ٹوئیاں کوئی نہ مارے

Extremists

Extremists

بس حد ہو گئی اَب شدت پسندوں بہت ہو گیا ہے، بخش دو یار قوم کو اور خون خرابے سے باز آجاؤ، جیساکہ مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے اور شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چار رُکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے، تو ایسے میں ہر محب وطن پاکستانی کی ایک یہی التجاہے کہ اَب تو اللہ کے واسطے(حکومت اور شدت پسندوں) دونوں ہی جانب سے لچک اور نرمی کا مظاہرہ بھی کیا جائے، اور اِسی کے ساتھ ہی آج اپنے پہلے اہم اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم اپنے نیک جذبات کے ساتھ مُلک کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور مُلک میں قیام امن کے لئے دس قدم آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہوئے جس شان وعظمت اور تُزک واحتشام سے یہ نکل کھڑی ہوئی ہے، تو ایسے میں اِسے حکومت اور شدت پسند وں کی جانب سے بھی مایوس نہ کیا جائے، اور سب ہی(جن میں حکومت و حزب اختلاف، قومی ادارے، عوام اور شدت پسندبھی شامل ہیں )کی جانب سے اِس مذاکراتی ٹیم کو بھر پور طریقے سے خوش آمدید کہا جائے، ایک دوسرے کو گلے لگا کر دل سے دل ملا کر ایک دوسرے کی دل کی دھڑکنوں کو اِس طرح جوڑ دیا جائے کہ اَب یہ کبھی بھی جُدانہ ہونے پائیں اور شدت پسند مذاکرات کے اختتام تک ایسے ہی وزیراعظم کی اعلان کردہ چار رُکنی کمیٹی کا خیرمقدم کریں جیسا کہ اُنہوں نے پہلے روز اِس چار رُکنی کمیٹی کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے اِس کا اوّل روز خیر مقدم کیا ہے، اَب مذاکرات دونوں ہی جانب سے اِرادی طور پر کامیاب بنائے جائیں، اور اَب کسی بھی جانب سے اغیار کے بہکاوے میں آکر بہانے بازی یا ٹامک ٹوئیوں کا سلسلہ شروع کر کے مذاکرات کو ختم نہ کیا جائے۔

کیوں کہ آج میری دھرتی پر میرے پیاروں کا بہت خُون بہہ چکا ہے، ایسے میں سر زمینِ پاکستان کا کوئی زرہ بھی ایسا نہیں ہے جو میرے پیاروں کے مقدس خُون سے ترنہ ہواہو، ایسے میں مزید خُون خرابے سے بچنے کے لئے مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں، جس سے میرے وطن کا ہر فرد دہشت گردی اور خُون خرابے سے بچ سکتا ہے اور مُلک امن کا گہوارہ بن ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

جبکہ یہاں یہ امر بھی یقینا باعثِ مُسرت اور قوم کے لئے حوصلہ افزاہے کہ گزشتہ دِنوں قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ مُلک سے فوری طورپر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت ایک واضح موقف اور حکمتِ عملی تک پہنچ چکی ہے، اِس موقع پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے انتہائی عزم و ہمت سے یہ بھی کہا کہ آج پاکستان کے عوام اور ادارے دہشت گردی کی زد میں ہیں، ہمارے معصوم بچے مررہے ہیں، اِن لمحات میں دہشت گردی جیسے مسئلے کے خاتمے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا فوری حل کبھی بھی ثابت نہیں ہو سکتی ہے، اِس بنیاد ی نقطے پرقائم رہ کر ہی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اداروں، سیاستدانوں اور عوام کو اپنا ہم خیال بنایا کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے چار رکنی کمیٹی قائم کردی ہے،اور وزیر اعظم کمیٹی کے اعلان کے ساتھ ہی ایک بار پھر اپنے اِس عزم وہمت کو دھرایا کہ”شدت پسندوں کو مذاکرات کے لئے ایک اور موقع دیا جا رہا ہے۔

حالانکہ اِس موقع پر راقم الحرف کو وزیراعظم کے اِس بیان سے ایسا لگا کہ جیسے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے بنائی گئی اپنی چار رکنی کمیٹی کے چارو ں اراکین جن میں( اپنے یعنی وزیراعظم کے نومولود خصوصی معاون) و سینئر کالم نگارعرفان صدیقی، رحیم اللہ یوسفزئی، میجر (ر)محمدعامر اور سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں اِن سے پُراُمید ہیں کہ یہ اِن کے اعتماد کو جِلا بخشیں گے اور یہ چاروں با اعتماد اور قابلِ بھروسہ اشخاص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مُلک کو دہشت گردی سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

جبکہ آج یہ ٹھیک ہے کہ شدت پسندوں سے فوری مذاکرات کے لئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چار رُکنی کمیٹی بناتو دی ہے مگر اِس غیر متنازعہ کمیٹی کو غیر متنازعہ بنائے رکھنے کی بھی ذمہ داری حکومت اور اداروں کی ہی ہونی چاہئے، اور حکومت اِس چار رُکنی کمیٹی کو ایسے ہی با اختیار بنائے، جیسے صاحبِ اختیار اپنے اختیار کے ساتھ اپنے فرائض میں بھی سخت ہوتاہے، اَب حکومت یا ادارے اِس کا کاموں میں مداخلت نہ کریں جو اور جیسا کمیٹی کرے اِسے کرنے دیا جائے اور اِسے اپنی سے ہانکنے سے اجتناب کیا جانا بھی اشد ضروری ہے ورنہ ساری محنت اور کام پر ذراسی دیر میں پانی پھر جائے گا۔

اگرچہ آج بھی وزیراعظم نواز شریف کی چار اشخاص پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی پر کھلے اور دبے لفظوں میں مُلک کے اندار کچھ سیاسی ومذہبی لوگ اعتراضات کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں، مگر دوسری طرف دہشت گردی سے خُوفزدہ رہنے والے عوام الناس اِس نقطے پر بڑے پُر اُمید ہیں کہ ایک عرصے بعد دہشت گردی سے نجات کے لئے وزیراعظم کی بنائی گئی یہ چار رُکنی کمیٹی مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضروراپنا مثبت وتعمیری کردار ادا کرے گی اور مُلک کو دہشت گردی سے نکال کر اُس جانب لے جائے گی جس کی برسوں سے قوم کو شدت سے آرزو تھی مگر اِن تمام باتوں کے علاوہ آج بھی قوم کو ایک ڈراور مخمصہ یہ کھائے جا رہا ہے کہ کیا اَب بھی کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی چار رُکنی کمیٹی کو سُہاناخواب بنا دینا چاہتی ہیں؟ ایسے میں دونوں جانب سے اِن خدشات اور سازشوں پر بھی کڑی نظر رکھنی ہوگی۔

بہرحال اِس موقع پر مجھے جائس برورز کا یہ قول یاد آگیا وہ کہتاہے کہ خلوص اور سچائی کی بنیا پر قائم کئے گئے تعلقات پیار محبت کا باعث بنتے ہیں اور اَب وہ دن کوئی دور نہیں رہے ہیں کہ جب حکومت کی جانب سے شدت پسندوں سے پُر امن مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی یہ چار رُکنی کمیٹی اپنے قول و فعل اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دے گی کہ اِس کا خلوص اور اِس کی سچائی شدت پسندوں سے محبت اور خلوص کے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

آج وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی چار رُکنی مذاکراتی کمیٹی پر جو کچھ مُلکی سیاستدان تنقیدیں کر رہے ہیں اِنہیں اپنے ذہنوں اور عوامی سطح پر قبل ازوقت مذاکراتی کمیٹی کی کارکردگی پر منفی سوچ نہیں پیدا کرنی چاہئے بلکہ ایسا کچھ کرنے کے لئے اُس وقت کا ضرورخیال کرنا چاہئے جب خدانخواستہ مذاکراتی کمیٹی کسی معاملے میں ناکامی کا منہ دیکھ کر پلٹ جائے اور اِسی کے ساتھ ہی میں آخرمیں چلتے چلتے وزیراعظم نواز شریف کی بنائی گئی چار رُکنی مذاکراتی کمیٹی سے متعلق اپنے مندرجہ بالا تمام تر نیک جذبات اور اُمید افزانیک شگون رکھنے کے باوجود بھی میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ابھی تک یہ بھی لگتا ہے کہ جیسے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی جماعت کے کچھ لوگ مذاکراتی عمل کو لے کر چلنے میں غیر سنجیدہ ہیں مگر اِن کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ وہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے حامل نہیں ہیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں اور اِن کا ایک یہ بھی خیال ہے جوکہ بڑی حدتک درست بھی لگتاہے کہ جس طرح حکومت اور ادارے شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں تو ایسے ہی شدت پسندوں کو بھی یہ ضرور چاہئے کہ وہ بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ورنہ ایسا نہیں ہوا تو پھر دہشت گردی اور شدت پسندی سے نجات پانے تک حکومت کے لئے طاقت کا استعمال ناگزیر سمجھا جائے گا۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com