تحریر : عبد الجبار خان دریشک احمد پور شرقیہ کے المناک سانحہ میں ہلاکتوں کی تعداد 218 ہو چکی ہے جبکہ 40 کے قریب افراد اب بھی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں اس حادثے کے فوری بعد تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے سانحہ کی ایف آئی آر درج کی گئی جس میں ٹینکر کے ڈرئیو ار مالک اور کمپنی کو نا مز د کیا گیا تھا شروع میں یہ کہا جا تا رہا کہ ڈرائیور مو قع سے فر ار ہو گیا ہے لیکن بعدا زں ٹینکر کا ڈرائیو رنشتر ہسپتا ل میں زیر علاج پا یا گیا جو ہسپتال میں ہی دم توڑ گیا تھا مختلف اداروں کی تحقیقات میں کبھی ضلعی انتظا میہ ذمہ دار ٹھہری تو کبھی مو ٹر وے پو لیس تو کبھی مقا می پولیس تحقیقاتی رپو رٹوں کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔
گزشتہ دونوں اوگرا نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں کمپنی کو ذمہ دار ٹھہریا گیا اور کمپنی پر ایک کروڑکا جرمانہ کیا عائدکیا اس کے علاوہ مر نے والوں کو فی کس دس دس لاکھ اور زخمیوں کو فی کس پا نچ پانچ لا کھ روپے اداکر نے کی ہد ایت کی گئی رپورٹ کے مطابق آئل ٹینکر مقر رہ معیا ر کے مطابق نہیں تھا آئل ٹینکر کا فٹنس سرٹیفکیٹ بھی جعلی تھا جبکہ 50 ہزارلیٹر کی گنجا ئش والے آئل ٹینکر کے ایکسل کی تعدا 5 کی بجا ئے 4 تھی سانحہ احمد پر شرقیہ کی تحقیقات کے بعد تمام محر کا ت سامنے آرہے ہیں کہ کہاں کہاں معیار اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس کی وجہ سے اتنا المناک حادثہ پیش آیا ہے ہمارے ہاں قائدے قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد صفر ہوتا ہے کسی حادثے کے فوری بعد کچھ دن تک قوانین پر عمل کر وایا جا ئے گا پھر وقت گزرنے کے ساتھ دوبار قانون کی خلاف ورزی شروع ہو جائے گی اور پھر کسی اور حادثہ ہو نے تک ایسا چلتا رہے گا۔
ہمارے ملک کی سٹرکوں پر لاکھوں کی تعداد میں دوڑتی گاڑیاں جن میں سے آدھی سے زیادہ معیار کے مطابق ہیں ہی نہیں اگر آئل ٹینکرز کی بات کی جا ئے تو ان کی تعدا د بھی ہز اروں ہے ایک اندازے کے مطابق سٹر کوں پر چلتے ٹینکرز کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اتنی ہی تعد اد میں آئل ڈپو کے با ہر انتظار میں کھڑے ہو تے ہیں لیکن آج سے پہلے ان محر کا ت کو تلاش کر نے اور قانون پر عمل درآمد کر وانے کی کبھی کو شش ہی نہیں کی گئی آئل ٹینکرز کی بنا وٹ کی بات کی جا ئے تو 50 ہزار لیٹر گنجا ئش والے آئل ٹینکر کے ٹینک کی چا درنا میاتی سٹیل کی ہو تی ہے لیکن غیر ممالک میں اس کا معیار اعلی قسم کے سٹیل اور المیو نیم ہے پاکستان میں چا ئنہ سے امپو رٹ ہو نے والے ٹنیکرز کی چادرقدرے عالمی معیا ر کے قریب تر ہو تی ہے اس کے علا وہ زیادہ تر ٹینک مقا می ورکشاپس میں تیار ہوتے ہیں جن کو باڈی میکرز تیار کر تے ہیں ان کے تیار کردہ ٹینک کی سٹیل چادر کا معیار کم تر اور وزن کم سے کم رکھنے کی کوشش کی جا تی ہے ان مقامی ورکشاپس میں اکثر میکنک کا م کرتے ہیں جبکہ ان کو بنانے والے باڈی میکرز کوکسی انجینئرز کی خدمات حاصل نہیں ہو تی ہیں کچھ عرصہ قبل یہ بھی انکشاف ہو چکا ہے کہ پاکستان میں چلنے والے 85 فیصد آئل ٹینکرز غیر محفوظ ہیں جو بین الاقومی معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں اوگر ا کی حالیہ رپورٹ کے مطا بق ٹینکر کے چار ایکسل تھے جبکہ ایکسل کی تعدا د پا نچ ہو نی چا ہے۔ سٹرک پر چلنے والے ان آئل ٹینکرز کا جا ئزہ تو لیں تو بڑی تعداد میں چا ر ایکسل والے آئل ٹینکر ہی دوڑ رہے ہو تے ہیں آئل کمپنیاں تیل کی مختلف علاقوں اور ڈپوں تک ترسیل آئل ٹینکر ز کے ذریعے کرتی ہیں اس کے علاوہ پائپ لا ئین سے ترسیل کا نظام پاکستان میں پارکو کے پا س ہے آئل ٹینکرز کے ذریعے تیل نقل حرکت جس میں آئل ٹینکرز کا معیار غیر تسلی بخش ہو نے کے ساتھ ان چلا نے والے ڈرئیوارز بھی عام گا ڑیاں چلا نے والے ہو تے ہیں ان کے پاس لانسئس تو ہو تا ہے پر وہ اصلی ہو یا جعلی اس کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ان ڈرئیوارز کی باقاعدہ تربیت نہیں ہوتی ان کے میڈ یکل ٹیسٹ تک نہیں کر وائے جاتے ان میں اکثر شراب اور چرس جیسے نشے کے عا دی ہو تے ہیں ان کی تنخوا ہیں کم ہوتی ہیں اور ڈیوٹی سخت اور زیا دہ ہو تی ہے جس کی وجہ سے یہ راستے میں آئل ٹینکر ز سے تیل چوری نکا ل کر فر وخت کر تے ہیں جس کو ان کی زبان میں ڈبہ ما رنا کہا جاتا ہے یعنی کسی ڈبے کنستر کے ذریعے سے تیل نکالتے ہیں جبکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں کچھ ڈرائیور حضرات خود بھی تیل کی بہتی گنگا میں مال بنا نے کی کو شش کر تے ہیں اور خودی بھی بہتا تیل جمع کر کے کسی ایجنسی یا گا ڑی والے کو فر وخت کر دیتے ہیں پٹرول پمپ مالکا ن اپنی گاڑیاں ڈپو کے لئے آدھی را ت کو روآنہ کر تے ہیں تاکہ دن کی اوقا ت میں تیل بھر وانیکے بعد جلد گاڑی واپس آجا ئے کیو نکہ سٹا ک ختم ہو نے کا خد شہ ہو تا ہے اس صورت حا ل کو دیکھا جا ئے تو ڈرئیوارز حضرات جلد ی واپس آنے کیلئے گا ڑی کو تیز رفتا ری سے چلا تے ہیں آدھی رات سفر کرنے کی وجہ سے ان کی نیند بھی پو ری نہیں ہو پا تی ہے اس سے حادثات کے امکا نا ت بڑھ جا تے ہیں رپورٹ میں ایکسل کا ذکر کیا گیا ہے کہ معیار کے مطابق بڑے آئل ٹینکر کے پا نچ ایکسل ہونے چاہیے پا نچ ایکسل ٹینکر کے ٹینک والے حصے میں جبکہ ایک فرنٹ ایکسل انجن والی سا ئیڈ پرکل ملا کر ایکسل کی تعداد چھ بنتی ہے جس میں 22 عدد ٹا ئرز استعمال ہو تے ہیں جن کی مالیت لا کھوں میں بنتی ہے ہم اپنی سٹر کوں کا جا ئزہ لیں تو یہ بہت پرانی اور ٹو ٹ پھوٹ کا شکا ر ہو چکی ہیں جو گاڑیوں کے ٹا ئرز کو جلد نا کارہ بنا دیتی ہیں ٹائرز کی تبدیلی پر آنے والے بھاری آخر جات سے مالکان بچنے کے لئے گزارہ چلانے کو ہی ترجیع دیتے ہو ئے ناکارہ اور پر انے ٹا ئر وں سے کام چلا نے کی کو شش کر تے ہیں ان نا کا رہ ٹا ئر و ں کے پھٹنے اور پنچر ہو نے سے گاڑی کے الٹنے کے امکا نا ت بڑھ جاتے ہیں اور اکثر حادثات کی وجو ہات ہی ٹا ئر پھٹنا ہو تی ہے اس کے علاوہ مالکا ن گا ڑیوں میں ایکسل کی تعداد اس لئے کم کر دیتے ہیں اس سے ٹا ئرز کی تعداد کم ہو جا تی ہے اور مالکان مزید اخراجات سے بچ جاتے ہیں ان کے مطابق تیل کا وزن کم ہوتا ہے اور ہمیشہ ایک سا ہی رہتا ہے جو تیل کی مقدار کم ہو پر بوجھ مزید کم ہو جاتا ہے لیکن زیادہ نہیں جبکہ کنٹینرز اٹھا نے والے ٹرالز زیادہ ایکسل اس لئے استعما ل کر تے ہیں کہ یہ اپنی مقررہ گنجا ئش سے زیادہ وزن لو ڈ کر تے ہیں اس سے ان کے کر ائے میں آضا فہ ہو جاتا ہے۔
اگر ان کے ٹائرز جلد ختم اور ناکارہ ہو بھی جائیں تو اس نقصان سے ان کو فر ق نہیں پڑتا ہے اکثر گاڑیوں میں الیکٹریکل وائرنگ میں فالٹ ہونے کی وجہ سے رات کو ہیڈ لا ئٹس کا روشن نہ ہو نا یا پھر ایک لا ئٹ پر گزارہ کرنے سے بھی حادثہ رونما ہو جاتے ہیں یہاں تک تو با ت ہو گئی حادثے میں ٹینکر الٹنے کی جبکہ حادثے کے فوری بعد اس ایر کو بند نہیں کیا گیا عوام نے بہتا تیل دیکھا تو جمع کر نا شروع کر دیا جس میں آگ لگ گئی جو بہت بڑے حادثے بن میں تبدیل ہو گیا اب مزید کچھ اور حقا ئق پر روشنی ڈالتے ہیں کسی بھی پٹر ول پمپ کی مظوری لینے کے لئے کم از کم بیس محکموں سے این او سی لینی پڑتی ہے اور ایک طویل دوڑ دھوپ کے بعد پٹر ول پمپ کا لائسنس ملتا جس پر اچھا خاصہ سرمایہ لگا نے کے بعدا یک پٹرول پمپ تیار ہو تا ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارے ملک میں کتنی غیر قا نونی تیل کی ایجنسیاں شہروں اور دیہاتوں میں کھلی ہوئی ہیں جن کو نا تو بیس محکموں سے این او سی لینی پڑتی ہے اور نہ ہی بھاری سرمایہ کاری کر نی پڑتی ہے بس ایک اجا زت نامہ جو ضلعی انتظامیہ جا ری کر تی ہے اور یہ لوگ کسی دوکا ن میں یو نٹ لگا کر با قا عدہ منی پٹرول پمپ بنا دیتے ہیں حالانکہ یہ اجا زت نامہ ذاتی استعما ل کے لئے ڈیزل سٹور کرنے کا ہو تا ہے جو زیادہ تر زرعی فارمز کو جا ری ہو تا ہے لیکن با اثر افراد سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے یہ سارا غیر قانونی کا رو با کر تے ہیں اور ضلعی سول ڈیفنس آفیسر ان کو چیک بھی کر تا ہے لیکن چیکنگ صرف نام کی ہو تی ہے دراصل دورے منتھلی وصولی اور ما ل پا نی بنا نے کی غرض سے ہو تے ہیں اصولی طور پر چیکنگ احتیاطی تدبر کے متعلق ہوتی ہے۔
اس غیر قانونی کا روبار کے بارے میں ساری انتظا میہ کو پتہ ہو نے کے با وجو د خاموشی اختیار کی جا تی ہے کچھ با اثر اور سیاسی وابستگی رکھنے والے پمپ مالکان خود بھی ایسی ایجنسیا ں قا ئم کر وا تے ہیں جن کا مقصد زیادہ تیل فروخت کرنے کے علاوہ دو نمبر اور ایر انی پٹرول اور ڈیزل بھی فروخت کرنا ہوتا ہے اب یہ ساری کرپشن کرنے والے معززین ہو جاتے ہیں اور بہاتا تیل بھر نے والے چور جا ہل بن جا تے ہیں مزید آگے بڑھتے ہیں پاکستان میں تیل کی سپلا ئی ٹر انسپورٹ کے علا وہ پا ئپ لا ئین کے ذریعے بھی ہو تی ہے جو ایک محفوظ طر یقہ کار سمجھا جاتا ہے کراچی سے محمود کو ٹ مظفر گڑھ تک پارکو کی ایک پا ئپ لا ئین اس مقصد کے لئے بچھا ئی گئی ہے جس کی حفاظت کے لئے با قا عدہ سیکو رٹی اور پٹرولنگ کی جاتی ہے جبکہ کچھ کچھ فاصلے پر سیکو رٹی گاڑڈ بھی تعینات کیے جاتے ہیں لیکن اس کے با وجود چور اس پا ئپ لا ئین میں وال فٹ کر کے تیل چوری کرتے ہیں ایسے چور کئی دفعہ رنگے ہا تھوں پکڑے بھی گئے ہیں جن پر مقدمہ درج بھی ہو تے ہیں چوری کے اس کھیل میں محکمہ کی کا لی بھیڑیں مقامی بااثر لوگ جن کو سیاسی لوگوں کی پشت پنا ئی حاصل ہوتی ہے ان افراد پر مقدمات کمزور اور کم سزا اور جر ما نے والی دفعات لگا کر بنائے جاتے ہیں جن کو کچھ لے دے کی بنیا د پر تمام مقدمات سے آزادی مل جاتی ہے بعد میں ایسے چور علاقے امیر افراد بھی شمار ہو تے ہیں اور معز ز بھی کہلا تے ہیں پر وہ جو بہاتا تیل جمع کر رہے تھے وہ چور ہیں اوجاہل ہیں اب ذرا حادثے کے بعد کی بات کر تے ہیں پورے جنوبی پنجا ب میں ایک برن یونٹ وہ بھی جائے حادثہ سے سوکلو میٹر سے زیادہ دور نشتر ہسپتال میں اس حادثے کے بعد جو افسوسناک پہلو دیکھنے میں آیا جنوبی پنجا ب کی ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان جنوبی پنجاب کو 70 سال نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یہاں پر صحت کے علاوہ تعلیمی سہولیات بھی کم ہیں پورے جنو بی پنجا ب میں یو نیو رسٹیز کی تعداد لاہو ر شہر میں یو نیو رسٹیز کی آدھی تعداد سے بھی کم ہے جنوبی پنجا ب کے اتنے بڑے علا قوں میں سوائے ملتا ن کے انڈسٹر یل زون کسی اور جگہ ہے ہی نہیں جنوبی پنجاب میں روز گا ر کے ذریعے نہ ہو نے کے برابر ہیں اس وقت لا ہو ر کر اچی روالپنڈی کے علاوہ مڈل ایسٹ میں مزدوری کر نے والے پاکستانیوں میں سے زیادہ تر جنو بی پنجاب کے لوگ ہی ہیں جو غربت کے با عث اپنے بچوں تک کو اونٹ دوڑ کرانے والوں کے پاس فروخت دیتے ہیں ڈیرہ غازی خان راجن پور کے علا قوں میں جہاں انسان اور جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کمپنی نے عفلت کی ہے اور اس کو جرمانہ کیا ہے تو اوگرا غیر قانونی تیل ایجنسیوں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سخت سیکورٹی کے باوجود پائپ لائین سے تیل چوری ہونے پر سیکورٹی کمپنی کو اور اور ملازمین کو بھی بھاری جرمانے لگائے اگر غفلت اور لاپروہی پر جرمانے ہو رہے ہیں سرکاری اہلکاروں کو سزائیں ہو رہی ہیں پر غفلت اور لاپرواہی تو ان علاقے کے سیاست دانوں نے بھی کی ہے جو اتنا عرصہ سے حکومت کا حصہ رہے ہوں عوام سے ووٹ لے کر اسمبلوں میں جاتے ہوں لیکن اپنے علاقوں کی صحت تعلیم کی سہولیات نہ دے سکے ہوں اور نہ ہی غربت کے خاتمے کے لئے کو بڑا پروجیکٹ نہ لے آئے ہوں ان پر جرمانہ کون کرئے گا ان کو سزا کون دے گا اگر یہ لوگ بے قصور ہیں تو سب بے قصور ہیں اگر تیل جمع کرنے والے لالچی کہنے والے ان باقی سب لو گوں کو کیوں نہیں کہتے ہیں؟اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ معاشرے کی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اخلاقی تربیت صرف غریب کی ہے کیوں بڑے امراء سیاست دانوں اور انڈسٹر یل کی کیوں نہیں یہ تلخ حقا ئق ہیں جن کو برداشت کرنا اور ہضم کر نا قدرے مشکل ہے۔