شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ”ضرب عضب” کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنایا لیکن کراچی ائیر پورٹ کے واقع کے بعد آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا ۔کوئی بھی ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ کچھ عناصر ریاست کی تنصیبات اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنائے ۔ لہٰذا ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جو بہت ہی مشکل تھا ۔پاکستان اس وقت ایک انتہائی نازک صورتحال سے دو چار ہے پاکستان کی مشرقی و مغربی سرحدوں سے خطرات سر اٹھا رہے ہیں۔
لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پوری قوم اور سیاسی قیادت سوائے چند ان لوگوں کے جن کے مفادات وابستہ ہیں اس آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں ۔آپریشن سے پیدا ہونے والی صورتحال میں سب سے بڑا مسئلہ متاثرین کا ہے جو اس وقت بے سروسامانی کی حالت میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ سے زائد آبادی اس وقت براہ راست متاثر ہو رہی ہے بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح حکومت نے اس دفعہ بھی انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
فوری طور پر متاثرین کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ۔وفاقی و صوبائی حکومت اس نازک صورتحال میں بھی اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کی کوشش کر رہی ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں ان حالات میں ان این جی اوز کا کردار بھی بہت ہی سوالات کو جنم دے رہا جو آئے روز اعلیٰ ہوٹلوںمیں سیمینارز پر لاکھوں روپے برباد کرتے نظر آتے ہیں ایسے میں مذہبی جماعتوں کے امدادی اداروں نے آگے بڑھ کر بے یارومدد گار متاثر ین کو گلے سے لگایا۔
جماعة الدعوة کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کے ادارے الخدمت فائونڈیشن کا کردار قابل تحسین ہے جو محدود وسائل کے ساتھ دن رات متاثرین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ حکومت کی جانب سے بروقت نامناسب انتطامات ہونے کی وجہ سے بہت سے خاندانوں کی افغانستان جانے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں ۔اگرچہ بہت سے خاندانوں کی آمدو رفت افغانستان میں رہتی ہے اور مختلف قبائل اور رشتہ دار ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں اور مشکل حالات میں کچھ خاندانوں کا جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے تاہم ہر موقع پر پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرنے والی افغان حکومت اس موقع کو بھی ضائع نہیں کرے گی۔افغانستان کی جانب سے پاکستابن پر الزامات آئے روز کا معمول ہے جبکہ یہ انٹیلی جنس اداروں کی یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ افغان انٹیلی جنس ادارے بعض شر پسند عناصر کے ذریعے سرحدی علاقوں میں پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔ گزشتہ ماہ پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان حکومت سے اس بات پر سخت احتجاج کیا تھا۔
افغان سیکورٹی فورسز کے تعاون سے دہشت گرد جن کی تعداد 150سے 200 تک بتائی گئی تھی نے باجوڑ چوکی پر حملہ کیا اگرچہ پاکستانی فورسز نے اس حملے کا بھرپور جواب دیتے ہوئے ناکام بنا دیا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ پاک افغان بارڈر پر حالات کس قدر کشیدہ ہیں گزشتہ سال بھی اسی طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جس میں افغان شدت پسند سرحد پار کر کے پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کرتے اور انہیں افغان سیکورٹی فورسز کی بھرپور تعاون حاصل ہوتا۔
یہ بات تو عیاں ہے کہ موجودہ افغان حکومت کے پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ تعلقات ذیادہ مضبوط ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی افغانستا ن میں ایسی حکومت بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے جو صرف پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنے والی ہو ۔ افغانستان کے اس خیالات کو مزید تقویت دینے کے لیے بھارت نے اچھی خاصی محنت کی ہے ۔امریکہ کی موجودگی میں بھارت افغانستان میں تعمیر نو کے نام سے خطیر رقم کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
Afghanistan
اب جوں جوں امریکہ کے انخلاء کا وقت قریب آتا جا رہا ہے بھارت کے لیے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس بات کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغان نیشنل آرمی بھارت کی تربیت یافتہ ہے اور 2011 میں ہونے والے افغان بھارت معاہدے کے تحت بھارت افغانستان کو فوجی امداد بھی مہیا کرے گا اور یہ بات بھی مسلمہ ہے۔
بھارت میں نئی آنے والی مودی سرکار پاکستان کے حوالہ سے کافی سخت موقف رکھتی ہے جبکہ افغانستان میں متوقع نئی حکومت جس کے سربراہ عبدا للہ عبداللہ ہوں گے وہ بھی پاکستان کے حوالہ سے نریندر مودی کی طرح اچھے جذبات نہیں رکھتی۔ ان حالات میں آپریشن ضرب عضب کے دوران مغربی سرحدوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت محسوس کی جا سکتی ہے۔ جہاں افغانستان کی جانب سے شر پسندوں کی جانب سے خطرات سر اٹھا رہے ہیں وہاں یہ مسئلہ بھی نہایت اہم ہے کہ افغان سیکورٹی ادارے پاکستان کے بعض دہشت گردوں کو مدد فراہم کر ہے ہیں۔
ہر گز اچنبھے کی بات نہیں کہ آپریشن کے باعث افغان سرحد کے پار بھاگ جانے والے دہشت گردوں کو افغان ادارے نہ صرف پناہ دیں گے بلکہ انہیں ایسی سہولیات دی جائیں گی تاکہ وہ آپریشن کے خاتمہ کے بعد دوبا ے رہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھ سکیں ۔اقتدار کی مسند پر بیٹھے حکمران اور تخت گرانے والی اپوزیشن جماعتوں کو شاید ان خطرات کا اس حد تک ادراک نہیں ہے یہی وجہ ہے وہ ان خطرات سے بے خبر اپنی اپنی روایتی سیاست میں مصروف ہیں۔
Military Operation
اس نازک موڑ پر نہایت اہم ہے کہ تمام سیاستدانوں کو آپریشن کی حمایت کے ساتھ یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ خطرات جو ملک کی سلامتی کو درپیش ہیں ان سے نبٹنے کے لیے حکومت اور بالخصوص اپنے سلامتی کے ادارے اور افواج کو مضبوط کرنا چاہیے روایتی سیاست کے لیے ابھی وقت ہے۔ اس وقت جہاں فوجی آپریشن کی ضرورت ہے وہاں سفارتی محاذ پر بھی ایک کامیاب سفارت کاری کی ضرورت ہے تاکہ مغربی سرحد وں کے خطرات کو کم کیا جا سکے کیونکہ یہ آپریشن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور پاکستان کی بقاء کا آپریشن ہے۔