سیالکوٹ (نمائندہ خصوصی) مجلسِ قلندرانِ اقبال کے زیرِ اہتمام طارق حسین بٹ شان کی نئی کتاب حیاتِ جاوداں کی رسمِ رونمائی سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے انتہائی خوبصورت ہال میں سر انجام پائی۔اس خوبصورت تقریب کا انعقاد نیشنل کونسل آف رائٹرز پاکستان(سیالکو ٹ ) اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان دونوں ادروں کی معاونت نے اس خوبصورت شام کو یادگار بنا دیا تو بے جا نہ ہوگا۔ اس تقریب میں سیالکوٹ شہر کی علمی و ادبی شخصیات کی موجودگی نے اس خوبصورت شام کو انتہائی پر وقار بنا دیا۔ عشقِ لازوال اور نخلِ آرزو کے بعد حیاتِ جاوداں کا سیالکوٹ کے علمی اور ادبی حلقوں میں کافی عرصے سے ا نتظا رو اشتیاق تھا کیونکہ اس کتاب کا ایک مخصوص حصہ سیالکوٹ کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔
مہمانِ خصوصی کا اعزا زسیالکوٹ کی ہر دلعزیز شخصیت خواجہ خاور انور کے حصے میں آیا جبکہ اس کی صدارت ملک کے نامور خطاط اور مصنف اسلم کمال کا مقدر بنی ۔تقریب کا آغاز مدارار اللہ قریشی کی پر اثر تلاوتِ کلامِ پاک سے ہو ا ۔جبکہ نعتِ رسولِ مقبول پیش کرنے کی سعادت یونس احمد کے حصے میں آئی۔تبسم وحید نے کلامِ اقبال جس سوز و گداز سے پیش کیا اس نے ہال میں بیٹھے ہوئے افراد کے قلب و نگاہ میں کیف و مستی کی کیفیت پیدا کر دی ۔ پروگرام کی نظامت عبدالشکور مرزا کے فنی ادراک کا شاہکار تھی۔
انھوں نے پروگرام کو اپنے بر جستہ جملوں سے ترو تازگی عطاکئے رکھی۔انھوں نے پروگرام کو انتہائی مہارت سے پیش کیا اوراسے کسی بھی مرحلے پر بوجھل نہ ہونے دیا۔یہ خوبصورت شام تین گھنٹوں پر محیط تھی لیکن اس کی دلکشی اس کے طوالت کے باوجود بھی متاثر نہ ہوئی جو حاضرین کے ذوقِ مطالعہ اور اقبال سے گہری محبت کی غماز تھی۔
صدرِ محفل اسلم کمال نے کتاب کے مصنف کو اتنی شاندار تصنیف لکھنے پر دل کھول کر داد دی ۔ان کا کہنا تھاکہ اس کتاب کے اندر چھوٹے چھوٹے واقعات ہمارے کلچر کے نمائندہ ہیں ۔ یہ ہمیں ہمارے اسلاف کی اعلی روایات کی یاد دلاتے ہیں۔سچائی کی تلاش اس کتاب کا نقطہ ماسکہ ہے۔یہ کتاب علامہ اقبال سے مصنف کے بے پناہ عشق کاایسا آئینہ ہے جس میں ان کی والہانہ محبت کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ایک لمبے عرصے کے بعد ایک ایسی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جس سے میرا بچپن جڑا ہوا ہے۔طارق حسین بٹ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اور یہ کتاب ان کے وسعتِ مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھا یا اسے ایسی دلکشی عطا کی کہ انسان اس کے سحر میں کھو جائے۔
اقبال و قائد کے حوالے سے ان کا مضمون انتہائی دلچسپی کا حامل ہے۔انھوں نے جس طرح علامہ اقبال کو فکری لحا ظ سے اعلی مقام عطا کیا ہے وہ انتہائی دلچسپی کا حامل ہے۔میری اہلِ سیالکوٹ سے درخواست ہے کہ وہ فکرِ اقبال کی ترویج کی خاطر کوئی ایسا فورم تعمیر کریں جہاں دنیا بھر کے دانشور اور اہلِ نظر ہم پر فکرِ اقبال کے نئے گوشے آشکار کر سکیں جو مہذب اور ترقی پیافتہ معاشرے کی تشکیل میں ہمارے ممدو معاون بن سکیں۔تقریب کے میزبان میجر (ر)منصور احمد صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا کہنا تھا کہ آج کی ادبی نشست میں شرکت ان کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کتاب ہمیں اپنی ذا ت کا کھوج لگانے کی ترغیب دیتی ہے۔یہ ہمیں بتا تی ہے کہ حیاتِ جاوداں کا نسخہ کیمیا کیا ہے۔
یہ کتاب اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ خودی کی بالیدگی سے ہی انسانی شخصیت تکمیل پذیر ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مجلسِ قلندرانِ اقبال کا شہرِ سیالکوٹ میں پہلا پروگرام ہے اور حاضرین نے جس انہماک،دلجمعی اور اور والہانہ پن سے اس پروگرام کو سنا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصنف کا دل سے احترام کرتے ہیں ۔۔ مجلسِ قلندرانِ اقبال ن ہمارے لئے ہوا کا تازہ جھونکا ہے جس میں فکرِ اقبال کی خوشبو رچی بسی ہے جو ہماعی روح میں سرژاری پیدا کر رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ چیمبر میں علمی اور ادبی پروگرام بہت کم ہوتے ہیں لیکن آج کی خوبصورت شام نے مجھے جس طرح محظوظ کیا ہے اس کے پیشِ نظر میں یہ اعلان کرنے میں طمانیت محسوس کرتا ہوں کہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے لئے چیمبر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گئے اور چیمبر ہر قسم کے ادبی اور ثقافتی پروگراموں کی سرپرستی کو اپنے لئے باعثِ فخر سمجھے گا۔
کتاب کے مصنف طارق حسین بٹ شان کا کہنا تھا کہ میری کتاب محبوبیت اور حیاتِ جاوداں کی مضبوط اساس پر کھڑی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے دور کے معاشرتی، ثقافتی او تہذیبی پہلووں کا احاطہ بھی کرتی ہے اور مصنف کے پیاروں کے خاکوں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کا بنیادی تصور ایک یسے انسان کا تصور ہے جو لا مکاں تک رسائی رکھنے کے قابل ہو سکے ۔یہ کتاب انسان کے اندر ان خدائی صفات کی جلوہ گری دیکھنے کی آرزوکا نام ہے جس سے موجودہ معاشرے کا سارا ڈھانچہ ہی بدل جائے اور انسان اپنے اعلی مقام سے آگاہ ہو جائے۔
اس تقریب میں سید لیاقت بنیامین ۔آصف بھلی ایڈوو کیٹ۔،پرویز احمد خان۔سیکرٹری سیرت سینٹر۔عبدالسلام عارف،ڈی اوسی سیالکوٹ۔فاروق مائر۔خالد حسین قریشی ۔پروفیسر اشفاق احمد قریشی۔پروفیسر خواجہ اعجاز بٹ۔علامہ صوفی محمد ادریس قریشی نے بھی خطاب کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب میں عشق کا رنگ نمایاں ہے۔اس کتاب کا ہر ایک واقعہ مصنف کی فنی مہارت کا بے پناہ ثبوت ہے۔حیاتِ جاوداں عشقِ رسول ۖ کی خوشبو سے معطر ہے ۔حیاتِ جاواداں کا آغاز انتہائی پر کشش ہے۔یہ کتاب ہمیں وطن س عزیز سے محبت کا درس دیتی ہے اور اس کی راہ میں شہید ہونے والوں سے اظہارِ محبت کرتی ہے۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں عشقِِ مصطفے ۖ کے رنگ ہر سو بکھرے ہوئے ہیں۔یہ ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر انسان اپنی پسند کا پھول چن سکتا ہے۔یہ کتاب اپنے دلکش اندازِ بیان اور سحر انگیز اسلوب کی بدولت عوامی پذیرائی کا مقام حاصل کرنے کے اوصاف سے مزین ہے۔،۔عوام کی کثیر تعداد کی شرکت نے اس پروگرام میں چار چاند لگا دئے جس سے اس پروگرام کو برسوں یاد رکھا جائیگا۔