لاہور : ابو ظبی سے تشریف لائے ہوئے مشہو رو معروف ادیب، شاعر اور کالم نگار طارق حسین بٹ شان کی پہلی کتاب عشقِ لازوال کی تقریبِ رونمائی کی رسم پلاک (لاہور )میں سر انجام پائی جس میں پاکستان کے نامور شعرا نے شرکت کرکے اس تقریب کو پر وقار بنا دیا۔
اس تقریب کے انعقاد کا سہرا مجلسِ قلندرانِ اقبال کے صدر محمد ظہیر الدین بابر کے سر ہے جن کی شبانہ روز کاو شیں اس تقریب کی کامیابی کی ضمانت تھیں۔ تقریب کی صدارت مایہ ناز شاعر ادیب اور کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی کا اعزا ز فلمی دنیا کی نامور شخصیت نا صر ادیب کے حصے میں آیا ۔تقر یب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہو اا ور پھر نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کی گئی۔
اس موقع پر ٹیلیویژن اور فلم کے نامور گلوکاروں سجاد بری اور عمران شوکت علی نے کلام ِ اقبال گا کر حاضرین میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا۔نظامت کے فرائض مسز ثمرین نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں ادا کر کے ماحول میںجاذ بیت کے رنگ بکھیر دئے ۔ آج کی یہ بھر پور ،شاندار ر اور پر وقار تقریب اس بات کا برملا اعلان تھی کہ لوگوں کو کتاب سے اب بھی محبت ہے۔عوام کی بڑی تعداد نے اس تقریبِ رونمائی میں شرکت کر کے تقریب کو مزید چار چاند لگا دئے۔
مشہو رو معروف شاعر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مصنف کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ طارق حسین بٹ کی تصنیف ( عشقِ لازوال) عشق کی وارداتِ قلبی کا ایسا حسین و جمیل تحفہ ہے جسے دل سے لگانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زندگی عشق سے عبارت ہے اور اگر زندگی میں عشق نہیں تو یہ مٹی کا ڈھیر ہے۔طارق حسین بٹ کی کتاب ان کی شخصیت کی طرح بڑی ہی خوبصورت ہے ۔ طارق حسین بٹ نے کتاب لکھتے ہوئے کسی تھکاوٹ کا ثبوت نہیں دیا بلکہ دل کے پورے جذبوں اور سچائی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے۔موجودہ دنیا جس میں مستقل اقدار کی موت کسی بھی انسانی المیے سے کم نہیں طارق حسین بٹ نے اس پر اشوب دور میں انسانی قدروں کے احیا کا بیڑہ اٹھا کر انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ان کا اسلوب اور اندازِ بیان اتنا دلنشین ہے کہ یہ سیدھا دل میں پیوست ہو جاتا ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ عشقِ لازوال طارق حسین بٹ کی پہلی کتاب ہے لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قطعا یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ان کی پہلی تصنیف ہے۔
مجھے امیدِ واثق ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کتاب اردو ادب میں ایک گراں مایہ اضافہ ثابت ہو گی۔ میں ایسی خو بصورت کتاب تصنیف کرنے پر انھیں د ل کی اتھاہ گہرایوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔فلم انڈسٹری کے نامور کہانی نویس،مکالمہ نگار،فلمساز اور ہدائتکار ناصر ادیب نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ٤١٢ فلموں کی کہانیاں لکھی ہیں لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے ایسے محسوس ہو رہاہے کہ میری ساٰر ی کہانیاں طارق حسین بٹ کی کتاب کے سامنے ہیچ ہیں۔میری دلی حواہش ہے کہ میں کوئی ایسی کہانی لکھ سکوں جو اس کتاب کے معیار کو چھوتی ہو۔انھوں نے کہا کہ میری پوری زندگی میں طارق حسین بٹ سے صرف دو ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن انھوں نے اپنی بے لوث محبت سے مجھے اپنا اسیر بنا لیا ہے ۔انسانیت سے محبت ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور یہی چیز ان سے میری قربتوں کا بنیادی سبب ہے۔ انھوں نے کہا کہ عشقِ لازوال کا مصنف بے ریا محبت کا داعی ہے اور اپنے افعا ل و کردار میں سچا اور کھرا ہے۔اس کی کتاب عشقِ لازوال عشق کے سچے جذبوں کی لازوال داستان ہے ۔ڈاکٹر صغری صدف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہو ئے عشقِ لازوال کے دیباچے اور لفظ کی عظمت کو بے حد سراہا۔انھوں نے کہا کہ انسانی عظمت اور بلند کرداری کے تمام اسباق اس کتاب میں موتیوں کی طرح جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔
آج کی نوجوان نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ ان موتیوں سے اپنے کردار میں جلا پیدا کریں۔انھوں نے مزید کہا کہ طارق حسین بٹ کی نظم (ایک انساں ہوں میں) بڑی ہی پر درد نظم ہے جو اپنے اندر سوزو گداز کا ایک جہاں سمیٹے ہوئے ہے۔ڈاکٹر صغری صد ف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ عشقِ لازوال جیسے ادبی شہ پارے کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونا چائیے تا کہ اقوامِ عالم نظریہ پاکستان اور افقارِ اقبال کی اصل روح سے روشناس ہو سکیں۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طارق حسین بٹ کی خوش لباسی اور نفاستِ طبع ان کی تحر یرو ں میں بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ ان کی کتاب (عشقِ لازوال) عظمتِ کردار اور ا صولوں کی پاسداری سے مزین نظر آتی ہے اور یہ کتاب وقت کے خدائوں کے خلاف ایک کھلی جنگ ہے اور اس جنگ میں ہم سب اس کے ساتھ ہیں۔
اس موقع پر مصنف طارق حسین بٹ شان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ہال پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے مجھے ایسے ایسے مہربان چہرے نظر آرہے ہیں جن کے ایثار،قربانی اور سرپرستی کی بدولت ہی میں آپ سے ہم کلام ہونے کے شرف سے سرفراز ہورہا ہوں۔اگر میرے یہ محسن مجھ پر اپنے احسانوں کا سایہ نہ کرتے تو میں بھی جہالت اور گمراہی کے تاریک اندھیر وں میں کہیں دم توڑ دیتا اور علم کی روشنی سے کبھی فیضیاب نہ ہو پاتا۔ عشقِ لازوال کی تصنیف میں تین کردار بڑے اہم ہیں۔ ان میں سرِ فہرست میری بڑی بہن صفیہ بلال بٹ اور بڑے بھائی محمد اقبال بٹ ہیں جن کی نوازشوں اور قربانیوں کے بغیر میرا اس مقام تک پہنچنا ممکن نہیں تھا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ میرا یہ مقام ان کی قربانیون کا صلہ ہیں جس پر میں ان کا تہہِ دل سے ممنون و مشکور ہوں۔دوسرا اہم کردار میری بیوی کا ہے ۔اس نے کمال تحمل اور بردباری سے میری قلم کاری میں میرا ساتھ دیا اور کبھی بھی میری دل شکنی نہیں کی ۔سب سے آخری اور توانا کردار میرے بیٹے ارسلان طارق بٹ کا ہے ۔وہ میرے لئے باطنی قوت کا مقام رکھتا ہے۔ اس کی ذات مجھے ہمہ وقت جوان اور توانا رکھتی ہے۔
یہ کتاب در اصل اسی کی کتاب ہے۔ وہ خود بھی بہت اچھا شاعر ہے اور اس کی کتاب جلد منظرِ عام پر آئیگی۔ اس موقعہ پر صوفی محمد ادریس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا دوست اپنے نظریات کے ساتھ مخلص ہے۔ عارف منصور نے اپنے خطاب میں مجلسِ قلندرانِ اقبال کو فکرِ اقبال کی ترویج کی خاطر اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ تقریب کے احتتام پر چیف آرگنائزر محمد ظہیرالدین بابر نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔انھوں نے کہا کہ کتاب کا ہر ایک حرف اور ورق تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دوسرے سے خاص ربط میں جڑا ہے اور جیسے جیسے قارئین اس کتاب کے صفحات الٹتے رہیں گئے تکریمِ انسانی اور فکرِ اقبال کے کئی نئے گوشے سامنے آتے رہیں گے۔
شرکائے تقریب۔عابد حسین قریشی،تسلیم ثنا اللہ ،ظہیر احمد قریشی،سلیم الطاف،شکور احمد قریشی،محمد سلیم بٹ،عامر بٹ،یاسر بٹ،میر عبدالرئوف، ضمیر آفاقی، صغیر احمد قریشی، طارق محمود قریشی، ڈاکٹر محمد یوسف اعوان، خواجہ صلاح الدین، چوہدری محمد عتیق، ہمایوں بٹ، طاہر تسلیم بٹ، کرنل عبدالر شید ملک،چو ہدری سجاد،عابد احسان،صدیق قادری، ڈاکٹر شاہد استقلال، عصمت قریشی، ملک زمان، شکیل انجم ،افضال اعجاز،ندیم شہزاد علی،فرحان قریشی عدنان قریشی۔ کامران قریشی اور خو اتین کی کثیر تعداد کی شرکت نے پروگرام کو کامیاب بنا دیا۔