وہ جو بیچتے تھے دوائے دِل

Iftikhar Mohammad

Iftikhar Mohammad

جب شیر کی طرح دھاڑنے اور شاہین کی طرح جھپٹنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے گھر کی راہ لی تو ہم نے یہ سوچ کر سُکھ کا سانس لیا کہ چلوچیف صاحب نے جو آئینی ”مارشل لاء ” لگایا ہوا تھا کم از کم اُس سے توجان چھوٹی اور اب راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے ، جہاں جی چاہے مُنہ مارو اور جسے جی چاہے ”پھڑکا” دو ۔مَن میں آئے تو ”میٹرک پاس” کو کسی بڑی کارپوریشن کا چیئر مین لگا دو اور جی چاہے تو ایک ہی دن میں قومی خزانے سے اربوں نکلوا کر ڈکار جاؤ۔کوئی پوچھنے والا ہو گا نہ” از خود نوٹس” لینے والا۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر تو چیف صاحب کی رخصتی کے لیے ایک ایک دن گِن کرگزار ہی رہی تھیں لیکن سب سے ”سیانے” تو جنابِ نواز شریف نکلے جنہوں نے انتہائی پھرتی دکھاتے ہوئے چیف صاحب کی ملازمت کے آخری دنوں میں خواجہ آصف صاحب کو قُربانی کا بکرا بنایا اور خود بال بال بچ گئے۔

ویسے ہمارے فوجی جوان بھی کچھ کم ”طرار” نہیں۔ جب چیف صاحب نے توہینِ عدالت میں آئی۔جی،ایف۔سی کو طلب کیا تو میجر جنرل صاحب نے CMH میں داخل ہو کر یہ اعلان کر دیا کہ وہ تو ”دردِ دل ” میں مبتلاء ہیں ۔اگر یہ دردِ دل وہی ہے جسے عرفِ عام میں ”ہارٹ اٹیک” کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُنہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے اور اگر یہ میر و غالب والا شاعرانہ میٹھا میٹھا دردِ دل ہے تو اِس کا علاج تو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس بھی نہیں تھا تبھی تو غالبنے جَل بھُن کے یہ کہا تھا کہ

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی

اگر میجر جنرل صاحب بَر وقت چیف صاحب کی آئینی ”دوکانِ حکمت” پر پہنچ جاتے تو شاید وہ جاتے جاتے کوئی نہ کوئی علاج ڈھونڈ ہی لیتے لیکن

وہ جو بیچتے تھے دوائے دِل
وہ دُکان اپنی بڑھا گئے

اب تو جرنیل صاحب کا واسطہ جناب تصدق حسین جیلانی جیسے”حکیم” سے پڑنے والا ہے جنہوں نے ابتدا ء ہی سے ”بے اصولی” کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ دُنیا جہان کا اصول تو یہی ہے کہ ”ہر کہ آمد ، عمارتِ نَو ساخت” لیکن چیف جسٹس صاحب نے یہ بیان داغ کر ہماراتو”بیڑاغرق ”کر دیا کہ ”جسٹس افتخار محمد چوہدری میرے رول ماڈل ہیں” ۔گویا اب وہ بھی جسٹس چوہدری صاحب ہی کے نقشِ قدم پر چلیں گے ۔اگر واقعی ایسا ہو گیا تو پھر ہم جو بڑے بڑے منصوبے بنا کر بیٹھے تھے ، اُن کا کیا ہو گا؟۔کیا ہماری اعلیٰ عدلیہ نہیں جانتی کہ اُس کے این۔آر۔او کو غیر آئینی قرار دینے سے پانچ سال تک کتنی افراتفری رہی، کتنے دل ٹوٹے، کون کون دکھی ہوا اور لوگوں نے کیسی کیسی بد دعائیں دیں؟۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تاریخ ایک دفعہ پھراپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

ہم تو حضرت غوث الا عظم جیلانی کی اولاد سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ بَس دعاؤں اور تعویز دھاگوں تک ہی محدود رہیں گے اور ہمارا شمار بھی بہت جلد اُن کے مریدین میں سے ہونے لگے گا لیکن اُنہوں نے تومحترم افتخار محمد چوہدری کو اپنا ”رول ماڈل” قرار دے کر ہمارا دِل ہی توڑ دیا۔ یقین جانیئے کہ چیف جسٹس صاحب کی رخصتی پر بہت سے دلوں میں لڈو صرف پھوٹے ہی نہیں، نگلے بھی گئے۔ محترم عمران خاں صاحب تو بس ”ایویں ای” کہتے رہے کہ وہ ایک بال سے تین وکٹیں گرائیں گے لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سترہ رکنی ٹیم نے تو ”کُشتوں کے پُشتے” لگا دیئے۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اُنہیں صبر نہیں آیا۔ اب بھی سپریم کورٹ کا ہر معزز جج یہی کہتا ہے کہ وہ افتخار چوہدری ہے۔ افتخار چوہدری ہے ۔بھئی اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں ہمارا چیف جسٹس ہی واپس کر دیں کیونکہ ہم ایک افتخار محمد چوہدری کو تو جیسے تیسے بھگت ہی لیں گے لیکن سترہ ”چوہدریوں” کو بھگتنا حکومت کے بَس کا کیا، فوج کے بَس کاروگ بھی نہیں۔

اصل موضوع سے ہٹ کر عرض ہے کہ گولڈن شیک ہینڈ کے تحت 1997ء سے فارغ کیے گئے U.B.L ملازمین کی کمیٹی نے میرے ساتھ رابطہ کیا اور اپنے معاشی قتل کی داستانِ غم سنائی۔ اُن کے مطابق میاں محمد نواز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت میں 5146 ملازمین کو جبری ریٹائر کیا گیا۔ یہ ہزاروں ملازمین گزشتہ سولہ سالوں سے انصاف کے منتظر ہیں لیکن انصاف محوِ استراحت ہے۔ اِن برخاست شُدہ ملازمین میں سے 50 دِل کا دورہ پڑنے سے جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے اور 200 سے زائد خود کشی کر چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ محوِ خواب انصاف بچ رہنے والے باقی لوگوں کے صفحۂ ہستی سے مِٹ جانے کے انتظار میں ہو تاکہ ”نہ رہے بانس ، نہ بجے بانسری”۔ برخاست شُدہ ملازمین کہتے ہیں کہ حضرت عمر تو کہتے تھے کہ اگر دریائے فرات پر کُتا بھی مر جائے تو روزِ قیامت اُن کی پرسش ہو گی لیکن ہماری اسلامی حکومت کے مسلمان حکمرانوں کے کانوں پر ہماری حالتِ زار دیکھ کر بھی جوں تک نہیں رینگتی ۔ہم اپیلیں کر کر کے تھک چکے ہیں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوتی ۔ہمارے سابقہ چیف جسٹس صاحب جو چینی کی قیمت بڑھنے پربھی ازخود نوٹس لے لیا کرتے تھے، اُنہیں بھی اپنے آٹھ سالہ ”دَورِ انصاف” میں اِس معاشی قتل پر از خود نوٹس لینا یاد نہ آیا۔ ”ایمپلائز ہیومین اینڈ سوشل رائیٹ موومنٹ کمیٹی یونائٹیڈ بنک” کے اراکین کے اِس معاشی قتل پر بیان کردہ حقائق کے مطابق بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ا ُن کے ساتھ صریحاََ زیادتی کی گئی ہے ۔اُن کے مطابق عالمی مالیاتی اداروں ، ورلڈ بینک اور آئی۔ایم۔ایف کے رولز کے مطابق کسی بھی ادارے میں گولڈن شیک ہینڈ کی صورت میں فارغ کیے جانے والے ملازمین کو سو فیصد مراعات دے کر رخصت کیا جاتا ہے۔

جبکہ سولہ سال پہلے محترم میاں نواز شریف کے نا اہل مشیروں کے مشورے پر UBL میں ڈاؤن سائیزنگ کی گئی اور ملازمین کو 100 فیصد کی بجائے صرف 50 فیصد مراعات پر ٹرخا دیا گیا جو عالمی مالیاتی ادوروں کے رولز کی صریحاََ خلاف ورزی تھی حالانکہ مالیاتی اداروں نے بینک ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے مالی امداد بھی دے رکھی تھی ۔میاں نواز شریف صاحب کی جلاوطنی کے دوران 2002ء میں UBL کے فارغ شُدہ ملازمین کا ایک وفد خانہ کعبہ میںمیاں صاحب سے ملا۔اِس وفد کے مطابق میاں صاحب نے نہ صرف اِس زیادتی پر اظہارِ افسوس کیا بلکہ بر سرِ اقتدار آنے کی صورت میں بقیہ 50 فیصد مراعات ادا کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ۔اگر حقائق یہی ہیں تو پھر ہم محترم وزیرِ اعظم صاحب سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اِن ملازمین کی داد رسی کرتے ہوئے اپنے وعدے کی لاج رکھیں گے کیونکہ وہ جنابِ آصف زرداری تو ہیں نہیں جن کے نزدیک ”وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے”۔ ہمیں یقین ہے کہ نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا عزم لے کر نکلنے والے میاں نواز شریف صاحب اگر نوجوانوں پر اربوں روپیہ صرف کر سکتے ہیں تو معاشرے کے اِن پِسے ہوئے ڈھلتی عمر کے لوگوں کو اُن کا حق بھی ضرور دلائیں گے۔

Riffat Mazhar

Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
https://www.facebook.com/riffat.ch.3