شیشہ نوشی تمباکو نوشی کی ایک جدید قسم ہے۔ نوجوان نسل اس کو تمام تر نقصانات سے پاک سمجھتی ہے اور اس کا زیادہ رجحان بھی ہمارے پوش علاقہ جات میں پایا جا رہا ہے۔ اول تو اس کے لیے باقاعدہ کیفے قیام میں لائے گئے لیکن اب یہ بڑی سوسائٹیز کے تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔
شیشہ میں تمباکو کو پانی کے ساتھ کچھ خاص فلیورز شامل کرتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے جس سے ایک ذائقے دار لطف پیدا ہوتا ہے۔ شروع شروع میں صرف لطف لینے کے لیے ہمارے نوجوان اس کو تھوڑا بہت استعمال کرتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ اس کے عادی بن جاتے ہیں اور یہ عادت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ پھر اس سے چھٹکارا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری نوجوان نسل اس کو فقط ایک تفریح یا شغل میلہ کہتے ہوئے بالکل مضر صحت نہیں سمجھتی جبکہ تحقیقات کے مطابق شیشے کا استعمال سگریٹ نوشی سے زیادہ خطرناک ہے اور ایک گھنٹہ شیشہ کے استعمال کو 200 سگریٹ پینے کے مترادف کہا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے تیزی سے پھیپھڑوں پر اثر پڑتا ہے اور اس میں موجود فیلورز گلے اور معدے کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ شیشہ میں بھاری مقدار میں ٹاکسن و کاربن مونو آکسائیڈ اور دوسرے سرطانی مادے پائے جاتے ہیں جو نہایت مضر صحت ہیں۔
ڈاکٹر سوین ڈرائر کہتے ہیں کہ شیشہ نوشی سے کاربن مونو آکسائڈ کا زہر پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سوین ڈرائر کے بقول، ”ایسے کم سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کو متلی، الٹی اور سر چکرانے کی شکایت ہو سکتی ہے اور بعض اوقات تو نوبت بے ہوشی تک پہنچ جاتی ہے۔”
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں اس پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی عمل میں لائی گئی جس کے تحت اکثر کیفے مالکان کو جیل بند اور بھاری جرمانے بھی کیے گئے اور باقی تمام کیفے مالکان کو انتباہ کیا گیا۔
نومبر 2015 میں جب اس کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو بہت سے طبقات اس کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن مقامِ حیرت کہ ناصرف کیفوں کے اندر بلکہ اب ہر ریسٹوریٹ اور ہوٹل کے اندر شیشے کا استعمال سرِ عام کیا جا رہا ہے اور اس کے فیلور ہر بڑے، چھوٹے سٹورز پر موجود ہیں۔ بہت سارے ہوٹلز میں باقاعدہ پرائیویٹ کمرے موجود ہیں جہاں پر گروپس بنا کر شیشہ پیا جاتا ہے۔ اس کی شئیرنگ سے نزلہ، زکام، کمر توڑ بخار و دیگر بیماریاں ایک دوسرے میں پھیل جاتی ہیں۔
افسوس در افسوس کہ نہ صرف ہمارے نوجوان لڑکے ہی اس عذاب کا شکار ہیں بلکہ بھاری اکثریت کے ساتھ لڑکیاں بھی اس کی عادی ہو چکی ہیں۔ شیشہ پینے کو آزاد خیالی کا نام دے دیا گیا ہے اور اس سے روکنے والے کو کندذہن سمجھا جانے لگا ہے۔ پاکستان میں اس کا بڑھتا رجحان ہماری نوجوان نسل کی تباہی و بربادی کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے استعمال سے ذہنی صلاحیتیں مفقود ہوتی جارہی ہیں اور ہم صرف چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔
لیکن کیا اس عادت سے چھٹکارے کی کوئی راہ موجود ہے یا نہیں؟ تو یقیناً عادت کو بدلنا بہت مشکل امر ہے لیکن خود کو مثبت بنا کر اس عادت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ خود کو دیگر معاملات میں مصروف کر کے، لوگوں سے میل جول میں اضافے سے مثبت سوچ جنم لیتی ہے جو اس عادت سے چھٹکارے کی وجہ بن سکتی ہے۔