کسی بھی فرد بشر سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جب انسان کے اندر پختہ عزم و حوصلہ ہو اور توکل اللہ ہو تو پہاڑ کو بھی خس و خاشاک میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ بادیٔ النظر کے رُخ کا مقابلہ اسی طرح کر سکتا ہے کہ جس طرح دریا میں تیز سیلاب کے باوجود اس میں بہنے والا تنکا طوفان سے مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ایک انسان جب برسات کی سرد اندھیری رات میں کسی سفر کا آغاز کرتا ہے تو ڈر تا ہے کیونکہ اسے یہ احساس ستاتا ہے کہ سفر لمبا ہے اور راستے مسدود اور انجان ، ایسے بھیانک رات میں ایسا نہ ہو کہ کوئی ڈاکو اس کی نیّا ڈبو دے۔ یہ سب اُمور فی الفور اور چند سیکنڈ میں ہی خیالوں میں اُمڈ آتے ہیںاور بندہ اپنے لئے احتیاطی تدابیر بھی اسی دوران سوچ لیتا ہے۔
ایسے میں انسان یہ سب سوچنے کے باوجود سب کچھ اللہ پر فیصلہ چھوڑتے ہوئے اپنا حوصلہ مضبوط کرتا ہے اور جب اللہ پر سب کچھ چھوڑ دیا تو پھر مسرور ہوکر ، خطرے سے بے پرواہ ہوکر خوشی خوشی اپنے احساسات سے دوچار ہوتا ہے۔اسی کو کہتے ہیں:”جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں”کے مصداق اپنی منزل مقصود کو پا لیتا ہے۔ لہٰذا جب بھی آپ کو کسی طرح کے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو اپنا حوصلہ ہمیشہ بلند رکھنا چاہیئے۔
انسان میں تجسس کا مادہ فطری ہے اسی تجسس نے اسے خلاء تک پہنچایا اور اسے زمین کی گہرائی میں بھی اُتارا۔ جب یہ سارے کام حوصلے اور ہمت سے انسان کر سکتا ہے تو اپنے ملک میں کیا ایسے لوگوں کی کمی ہے جو اپنی ڈوبتی میعشت کو، اپنے ملک میں جاری بے روزگاری کو، مہنگائی کو، دہشت گردی کو ختم نہیں کر سکتا۔ سب حوصلے اور ہمت کی بات ہے وہ کہتے ہیں نا کہ ” اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے”۔
اس ملک کی تقدیر بدلنی ہے تو زیادہ نہیں صرف اپنے ووٹ کا صحیح سمت میں استعمال کیجئے تاکہ ہمارا ملک صحیح معنوں میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ یہاں کے عوام کو بھی وہ ساری سہولیات میسر ہوں جو دوسرے ملکوں کے عوام کو حاصل ہیں۔ راستہ بہت کٹھن تو ہوگا مگر کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔کیونکہ آج ہمارے ملک کا اور ملک کے لوگوں کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، بقول ایک شاعر اور ان سے معذرت کے ساتھ کے۔ یہ دوستوں کا چلن ہم نے بارہا دیکھا ہماری کچھ نہ سنی بس اپنا فائدہ دیکھا ہم اپنی خانہ خرابی کا حال بھول گئے جہاں بھی الیکشن کا قافلہ دیکھا
Humanity
موجودہ دور ایسا دور ہے کہ جس میں اگر گہرائی سے انسانی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو چہار سُو مایوسی کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ دنیا سے انسانیت مفقود ہوتی جا رہی ہے، دنیا جتنی تیز رفتاری سے ترقی کرتی جا رہی ہے ، انسانی مسائل کی رفتار بھی تیز تر ہو رہی ہے، انسان کے چہرے سے خوشی کی لہر و مسکان غائب ہوتی جا رہی ہے، انسان دنیا کی پوری دولت حاصل کر لے اور اسے امن و چین حاصل نہ ہو تو وہ دولت راکھ سے بھی بد تر ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے یہاں امن و چین کیسے قائم ہو، ہمارا ملک جو کبھی امن کا گہوارا کہلاتا تھا جہاں ہر فرد بشر نہایت پُر سکون زندگی بسر کر رہاتھا ، امن و چین کہاں مفقود ہو گئی کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہو اور اس کی بے قراری انسانی زندگی کو کھوکھلی کرتی جا رہی ہے۔
کسی بھی ملک میں بے چینی اس وقت حائل ہوتی ہے جب ملک کے سلامتی کو کسی فرقہ پرست عناصر کے حملوں کا خطرہ ہو اور ایسے حالات میں حکومتِ وقت اپنے سیاسی مفاد کی خاطر پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے امن کے چہرے کو داغدار بنا دیتی ہے اور سیاسی حرص کی خاطر صرف اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ اب ایسے حکمرانوں کے بارے میں کیا کہنا کہ وہ خود آخرت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اللہ کے یہاں حکمرانوں کی زیادہ پکڑ ہوگی۔ کیونکہ انہیں کُل ملکی عوام کی داد رسی کے لئے سربراہ بناکر بٹھایا جاتا ہے مگر یہاں صرف اپنی جیبیں اور بینک اکائونٹ کو بڑھایا جاتا ہے اور عوام کو سسکتا اور بلکتا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔کیا اسی انصاف کی بنا پر انہیں حکمرانی ملنی چاہیئے۔ مگر یہ سادہ دل عوام سمجھتے ہی نہیں کہ انہیں اب جاگ جانا چاہیئے۔
آج نہ جاگے اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہ کیا تو اگلے پانچ سال بھی اسی طرح کسمپرسی کی زندگی آپ کی منتظر ہے۔موجودہ حکومت نے ملک کے سلامتی کو بالائے طاق رکھ کر مفاد عامہ کے بجائے سیاست پرستی کو ترجیح دی ہے جو مستقبل میں ملک، قوم اور جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ملک میں ایک بار پھر انتخابات کا دور دورہ ہے۔ اور الیکشن کمیشن نہایت ہی سخت انداز میں امیدواروں کی چھان بین کر رہی ہے البتہ اسکروٹنی کا عمل مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے، گو کہ تنقید کرنے والے تنقید کا اپنا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیںلیکن فی الحال اس عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بار اسمبلیوں میں شفاف لوگ ہی قدم رنجا ہو سکیں گے۔ مگر قوی امکان اور خدشہ یہ بھی ہے کہ کچھ بڑے نام جن پر دھبہ تو ضرور ہے مگر وہ بھی اسبلیوں تک اپنی رسائی ممکن بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
Assembly Pakistan
گو کہ یہ تعداد زیادہ نہیں ہے اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی۔ سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس بار بھی اسمبلی معلق ہی بنے گی کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ٹو تھرڈ میجوریٹی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا اور یوں ایک بار پھر اتحادی حکومت ہی کا امکان ہے۔عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت یک طرفہ بنتی ہے یا اتحادی، انہیں تو صرف اپنے مسائل کے حل سے دلچسپی ہے۔ جو بھی آئے عوام کا خیال کرے ۔ ان کی داد رسی کرے، ان کے مسائل کو حل کرے، انہیں روزگار فراہم کرے، انہیں مہنگائی کے جن سے آزادی دلائے، انہیں دہشت گردی اور فرقہ پرستی، ٹارگٹ کلنگ سے نجات دلائے۔انہیں لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائے، یہی چند کام ہیں جو اگر حل ہو گئے تو عوام اپنی حکمرانوں پر واری جانے کو بھی تیار بیٹھے ہیں۔ بصورتِ دیگر عوام تو پہلے ہی جینے کا حوصلہ چھوڑ چکے ہیں مزید کھنڈرات کی طرف ان کا سفر جاری رہے گا۔
جمہوریت میں سیاست اس کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہوتا ہے اگر سیاست شفافیت کے ساتھ کیا جائے یوں اس ستون کو جمہوری نظام سے الگ کر دیا جائے تو یہ ڈکٹیٹر شپ کہلاتی ہے اس لحاظ سے ہمارے ملک کے دستور سازوں نے یہاں کے مختلف طبقات، مذہبی اکائیوں اور تہذیب و ثقافت کو باہم ایک کڑی میں پروئے رکھنے کے مقصد سے ایسا دستور وضع نہیںکیا ہے جس سے یہاں بسنے والی سبھی اکائیوں کی خواہشات کی تکمیل بھی ہو سکے۔
اور ملک بھی متحد رہے اس لئے ملک کے عوام کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ جمہوری نظام کے تحت ہر پانچ سال بعد الیکشن کا نظم ہے ویسے یہ الگ بات ہے کہ کچھ مواقع پر ان حکومتوں کا دورانیہ پانچ سال سے کم عرصہ میں ہی ختم کر دیا جاتا رہا ہے۔جس کی وجہ سے بھی ملک عدم استحکام کا شکار رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اچھا مینی فیسٹو پیش کرکے عوام کو لبھانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر میڈیا پر انٹرویو کے دوران عوام کے تیور دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب مینی فیسٹو کام نہیں آنے والے بلکہ سچائی کام آئے گی۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی