بھتہ، چندا دیں گے، ٹیکس نہیں ؟

Tax

Tax

تحریر : قادر خان یوسف زئی

وفاقی مالیاتی بجٹ 2019-20 کے خلاف ملک گیر سطح پر تاجر تنظیموں نے شٹر ڈائون ہڑتال کی۔ کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے۔ یہاں بھی ملی جلی شٹر ڈائون ہڑتال ہوئی۔ مضافاتی علاقوں میں چھوٹے بازار جزوی طور پر کھلے رہے ، وزیر اعظم کراچی دورے میں تاجر طبقے سے مل کر پانچ صنعتی شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، چمڑے، کارپٹ، سپورٹس اور سرجیکل آلات کے لیے زیرو ریٹنگ سہولت ختم کر کے واپس 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے اور 50 ہزار سے زائد کسی بھی قسم کی خرید و فروخت کو شناختی کارڈ کا ریکارڈ رکھنے سے مشروط کرنے پر قائل کرنا چاہتے تھے ، لیکن تاجروں کی جانب سے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا اور ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی سیاسی جماعت کی کال کے بغیر ملک گیر سطح پر سخت احتجاج کا پیغام، ہڑتال کی صورت میں حکومت کو دیا گیا ہو ۔ حکومت بجٹ میں دیئے گئے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنا چاہتی ہے ، آئی ایم ایف بھی اپنی رپورٹ میں آگاہ کرچکا ہے کہ حکومتی اقدامات درست ہیں بلکہ آئی ایم ایف مزید کڑے اقدامات کا مطالبہ بھی کررہا ہے۔ مالیاتی سال 2019-20کے بجٹ منظوری کے بعد اشیا صرف و عام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور آنے والے دن مزید مہنگائی کا اشارہ دے رہے ہیں کیونکہ بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کے بعد عام اشیاء پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھ جانے سے سارا بوجھ عام عوام پر ہی آئے گا۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ٹیکس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لئے حکومت نے تاجر برادری کو بڑا ریلیف نہیں دیا ۔ واضح رہے کہ کھربوں روپے کے کاروبار کرنے والے ان گنت بیوپاری ٹیکس سسٹم میں داخل نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے کئی بڑے چھوٹے بازاروں میں اسمگل کی جانے والی کھربوں روپے کی مصنوعات سے گودام بھرے ہوئے ہیں۔ افغان ٹرانزٹ سسٹم یا ایران بارڈر سے غیر ملکی مصنوعات کھلے عام مارکیٹوں میں فروخت ہوتے ہیں۔ جن پر کوئی ٹیکس نہیں دیا جاتا ۔ لیکن عوام سے اصل سے دوگنا زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے ۔ عوام حکومتی اقدامات کو سمجھ نہیں پا رہی اور اس سوال کا جواب تلاش کررہی ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے سود پر قرض لئے ، حکومت کے مطابق عوام کا خزانہ کھا گئے اور اب نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں ، تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے کہ وہ کسی اور کے گناہوں کی سزا بھگتے۔ اگر کسی نے قومی خزانے کو لوٹا ، یا قرض لئے تو عوام سے ان کی کھال کیوں اتاری جا رہی ہے۔

یہ تیس ہزار ارب روپے اور اربوں ڈالرغریب عوام نے تو نہیں کھائے، تو حکومت اُن سے پیسہ نکالے جنہوں نے پیسے کھائے ان پر کیوں ٹیکس بڑھائے جا رہے ہیں ۔ ایک عام آدمی تو ماچس کی ایک تیلی جلانے سے پہلے ٹیکس دیتا ہے، فون پر بات کرنے سے پہلے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ، سفر کرنے سے پہلے ٹیکس کٹ جاتا ہے ایسا کونسی اشیا صرف نہیں ہے جس پر عوام حکومت کو سب سے پہلے ٹیکس نہ دیتے ہوں ۔ عوام پہلے ٹیکس دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد استعمال کرتے ہیں۔ عوام تاجروں سے بھی یہی سوال کرتی ہے کہ اگر کوئی لاکھوں روپیہ بھتہ مانگے تو فوراََ دے دیتے ہو ، کوئی سیاسی جماعت چندہ مانگے تو خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں ، لیکن حکومت اگر ٹیکس مانگے تو نہیں دیتے ، جب کہ عوام کو فیکٹری سے ہول سیل اور پھر چھوٹی دوکانوں تک ملنے والی ہر چیز کی بھاری قیمت بھی لیتے ہیں اور حکومت کو دیا جانے والا ٹیکس بھی ۔تو تاجر برادری عوام سے لیا جانے والا ٹیکس حکومت کو کیوں نہیں دیتی؟۔

شائد عوام کے ا ن سوالوں کے جواب کوئی دینا بھی چاہیے تو نہیں دے سکتا کیونکہ چور بازاری ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع لینا ایک جائز کاروباری حق تسلیم کیا جاتا ہے۔یہاں سب سے اہم بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جب حکومت کا اعلیٰ سطح کا وفد آتا ہے یا وزیر اعظم آتے ہیں تو ان سے چھوٹے تاجروں کی نمائندہ تنظیموں کی ملاقات نہیں کرائی جاتی بلکہ بڑے بڑے صنعت کار و سرمایہ کار ہی ملاقات کرتے ہیں ، چھوٹے تاجروں کے تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا ۔ ان کے بھی کئی مسائل ہیں جو بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کی وجہ سے انہیں درپیش ہوتے ہیں ۔ جن کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کو سب سے پہلے عوام کی مشکلات کو دیکھنا چاہیے کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ کسی اور کی غلطی کی وجہ سے کیوں ڈالا جارہا ہے۔

عوام تو قومی خزانے نہیں لوٹتے ، عوام کو کبھی غیر ملکی قرضوں سے ریلیف نہیں ملا ، بلکہ مہنگائی کا سونامی ہر دور حکومت میں بڑھتا چلا گیا ۔ موجودہ حکومت بھی جو قرض لے رہی ہے ، وہ بھی عوام کی مالی پریشانیوں کو نظر انداز کرکےََ وصول کیا جارہا ہے۔ بڑی بڑی ملیں ، صنعتیں، سرمایہ دار ، جاگیر دار، وڈیرے اور خوانین پر کوئی اثر نہیں پڑرہا ، بلکہ حکومت کی جانب سے بڑھائے جانے والے ٹیکسوں کو وہ اپنے منافع کے ساتھ غریب عوام پر منتقل کردیتے ہیں۔ حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں کا رخ درست سمت میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ کھربوں روپوں کا بوجھ عام عوام پر ڈالنے سے غریب عوام کی کمر پہلے ٹوٹ چکی ہے ، ٹیکس نیٹ ورک کو مربوط کرنے کے لئے اقدامات میں دو فیصد طبقے کو مراعات دینے کے بجائے98 فیصد عوام کے مسائل کو پیش نظر رکھے جانا ضروری ہے۔

ملک بھر میں اگر صنعتیں ، مارکیٹ بند ہو رہی ہیںتو اس سے سرمایہ دار طبقے کو خاص فرق نہیںپڑ رہا ، بلکہ ایک غریب محنت کش جو ٹھیکے داری نظام کے تحت کام کرتا ہے وہ بے روزگار ہوجاتا ہے۔ لاکھوں مزدور بے روزگار ہوتے جارہے ہیں ، صنعتوں کی بندش سے سب سے زیادہ نقصان مزدور طبقے کو ہورہا ہے ۔ حکومت کو اس بات کا ادارک کرنا ہوگا کہ جو صنعتیں بند کی جا رہی ہیں اورجو مالکان اپنی فیکٹریوں کو تالے لگا رہے ہیں وہ نہ صرف ملکی معاشی پہیہ کو روک رہے ہیں بلکہ لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار بھی کررہے ہیں۔ مارکیٹوں کی بندش سے ایک دن میں اربوں روپوں کا نقصان الگ ہوتا ہے۔محنت کشوں کی معاشی تکالیف مزید بڑھ جاتی ہیں ۔ تاجروں کو ٹیکس نیٹ ورک سسٹم میں لانے کے لئے انہیں اتنا وقت دیا جائے جس کا وہ مطالبہ کررہے ہیں۔ ہڑتالوں کی آڑ میں ناجائز مطالبات کو تسلیم نہ کیا جائے لیکن جو جائز مطالبات ہیں ان کو فوراََ حل کیا جائے کیونکہ اس سے صرف مزدرو طبقہ پریشان ہورہا ہے۔

معیشت کو دستاویزی بنانا ایک اچھا اقدام ہے ، لیکن اسے نافذ کرنے کے لئے ایسے اقدامات نہ کئے جائیں جس سے عام عوام متاثر ہوتی ہو۔ عوام ہڑتالوں سے پریشان ہے تو بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ڈیپرشن میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کے معاشی اقدامات میں اداروں کی تطہر بھی ضروری ہے ، کالی بھیڑوں کا صفایا ناگزیر ہے۔ حکومت اداروں میں ہونے والی کرپشن کو بھی روکے ۔ گیارہ مہینے کی مدت میں حکومتی اداروں میں کرپشن میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔حکومت کو اپنے ہی اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کرپشن و منی لانڈرنگ روکے جانے کے اقدامات سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے کہ ماضی کے مقابلے میں انہوں نے کتنی ارب کی کرپشن روکی ، کتنے کھرب منی لانڈرنگ سے روکے گئے ۔ حکومتی اپنے عملی اقدامات سے آگاہ کریگی تو اس سے عوام میں اعتماد آئے گا ۔ انہیں یقین ہوگا کہ حکومت کی معاشی سمت درست ہے ۔ لیکن ابھی تک عوام حکومتی دعوئوں کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھ سکی ہے بلکہ ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے ، جس سے آنے والے دنوں میں حکومت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور عوامی احتجاج کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جو یقینی طور پر موجودہ نظام کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔عام محنت کشوں کو مزید بے روزگار ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کو ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنا ہونگے۔ کیونکہ بڑھتی بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

 Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی