اسلام آباد (جیوڈیسک) تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر) نے بجٹ 2016-17کے لیے تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ٹیکس نادہندگی کو جرم قرار دے اور ٹیکس چوری کی تجویز کردہ سزا میں اضافہ کرے۔
گزشتہ روز جاری کردہ رپورٹ میں تھنک ٹینک نے کہاکہ ملک میں مالی جمودکی وجہ سے حکومت عوام کے لیے سہولتیں اور انفرااسٹرکچرمہیا نہیں کرپائی، عوام ملک میں ملازمتیں، معاشی ترقی اور بجلی کی قابل اعتماد ترسیل چاہتے ہیں، ہر ایک کو معلوم ہے کہ کم ٹیکس کی کیا وجوہ ہیں لہذا اب باتیں نہیں عمل کا وقت ہے، حکومت نے مالی مشکلات پر احسن طریقے سے قابو پایا ہے۔
ایف بی آر کافی حد تک اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرتا ہوا نظر آرہا ہے نیزمالی خسارہ بھی اپنے ہدف 4.3 فیصد کے اندر ہی رہے گا جبکہ معیشت کی سرگرمیوں کو تیز کرنے اور سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے حکومت کو اب بھی واضح اوربڑی اصلاحات کرنا ہونگی، حکومت نے ابھی تک پولیٹیکل اکانومی، طرز حکومت کی بہتری اور پیداوار میں اضافے کی طرف توجہ نہیں دی۔
اس کے علاوہ ملک میں گرتی ہوئی برآمدات کے ساتھ بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔رپورٹ میں سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کو ہے لہٰذا معیشت نے جو پائیداری حاصل کی ہے اب اس کا تسلسل قائم رہنا چاہیے، ٹیکسوں میں اضافہ وسیع اور بنیادی ڈھانچے کے قیام کے ذریعے ہونا چاہیے، ملک کے اندر سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار میں بھی اضافہ کیا جائے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے اندر ڈیولپمنٹ کا احاطہ وسیع ہوناچاہیے جس میں اقتصادی راہداری منصوبہ بھی شامل ہے۔
بجٹ تجاویز میں کہا گیاکہ ٹیکس وصولیوں کے لیے اس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو گا، ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن مسئلہ ٹیکس ادائیگی ہے جسے یقینی بنانا ہوگا، حکومت ٹیکس چوری کے بڑے کیسز کو نمایاں کرے، غیرمنقولہ جائیداد کی منتقلی کے لیے ٹیکس آئی ڈی تجویز کرے، ایف بی آر دوسرے محکموں اور اداروں کے ساتھ ٹیکس کے سلسلے میں معلومات کا تبادلہ کرے تاکہ ٹیکس نا دہندگان کی نشاندہی ہو سکے۔
رپورٹ میں ایف بی آر میں بنیادی و نمایاں تبدیلیوں کے علاوہ ایف بی آر کے نظام اور طریقہ کار کو آسان کرنے پر بھی زور دیتے ہوئے تجویز کیا گیاکہ وفاقی حکومت زیادہ ٹیکس وصولیوں کے لیے صوبائی حکومتوں پر زور دے کہ زرعی وشہری علاقوں کی جائیداد پر سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جا سکے، جاری اخراجات معقول بنانے کے لیے ان کے طریقہ کار پر نظرثانی کرے، ترقیاتی اخراجات کو موثر بنانے کے لیے پلاننگ کمیشن اپنی سالانہ منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔
پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے روڈمیپ ہونا چاہیے اور سیاسی قیادت و اسٹیک ہولڈر زپر مشتمل بورڈ ترتیب دیا جانا چاہیے جو پبلک سیکٹر پروگرام کی نگرانی کرے، وسائل کا بے ترتیبی سے استعمال کرنے کے بجائے پلاننگ کمیشن کو چاہیے کہ وہ 3 یا 4 شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پرمنتخب کرے اور ان سیکٹرز کو لے کر آگے بڑھا جائے تاکہ موثر طریقے سے ان کی تکمیل ہو سکے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے ملکی ترقی اور ڈیولپمنٹ کو مدنظر رکھ کر بجٹ تیار کیا جانا چاہیے، بجٹ ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں معاشی اہداف کے حصول اور غربت کے خاتمے کیلیے اقدامات شامل ہوں۔