اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جی ایس ٹی از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ حکمران خود سے ٹیکس لگائیں گے تو پارلیمنٹ سے کوئی رجوع نہیں کرے گا۔ عبوری طریقیکی اجازت دی تو پارلیمنٹ کا کردار ختم ہو جائے گا۔ اسلام آباد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جی ایس ٹی اور پٹرولیم قیمتوں میں اضافے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما کس دیے کہ حکومت کو ٹیکس نافذ کرنے سیمنع نہیں کر رہے۔ حکومت کو آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ٹیکس وصولی کے بغیر حکومتیں نہیں چلتیں تاہم جس طرح عبوری سیلز ٹیکس لگایا گیا وہ ناقابل قبول ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عبوری طریقے کی اجازت دی تو پارلیمنٹ کا کردار ختم ہو جائے گا۔ حکمران خود سے ٹیکس لگائیں گے تو پارلیمنٹ سے کوئی رجوع نہیں کرے گا۔ حکومت نے ایک فیصدجی ایس ٹی بڑھایا لیکن قیمتیں 15 فیصد بڑھ گئیں۔ عبوری اضافے کا کیا جواز ہے۔
جس پر اوگرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت حکومتی رکن بجٹ تجاویز سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ اس بات کا یقین تھا کہ ایک فیصد جی ایس ٹی اضافی کی تجویز منظور ہو جائے گی اور اسی یقین کے تناظر میں قیمتیں فورا بڑھا دی جاتی ہیں۔
ایف بی آر کے وکیل رانا شمیم نے موقف اختیار کیا کہ اوسطا پندرہ دن میں سوا ارب روپے جی ایس ٹی کی وصولی ہوتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر اپنے معاملات درست کر لے تو ٹیکس ہی ٹیکس اکھٹا ہوسکتا ہے۔