ٹیکس نظام کی خرابیاں

Tax

Tax

تحریر : طالب حسین
کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اور ریاست کو ویلفیئرسٹیٹ بنانے کے لئے مربوط اور فعال ٹیکس کے نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔پاکستان کا ٹیکس کا نظام شروع ہی سے مصلحت پسندی اور اشرافیہ کے دبائو کا شکار ہے دوسری طرف غیر ضروری اخراجات اور غیر ترقیاتی منصوبے جن کا مقصد ذاتی تشہیر اور ووٹ بنک بنانا ہوتا ہے ،کی وجہ سے ملکی آمدنی اور اخراجات میں توازن مسلسل خراب ہوتا چلا آرہا ہے۔ملکی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مسلسل قرضہ لیا جاتا ہے اور ملک کا مجموعی قرضہ آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہماری میعشت پل صراط سے گزر رہی ہے ۔ہمارے ملک میں ٹیکس کے عداد و شمار انتہائی مایوس کن رہے ہیں۔جن کا اندازہ درج ذیل اعشاریوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

شرح قسم
سری لنکا
چین
بنگلہ دیش
انڈیا
ملائشیا
پاکستان
ٹیکسGDPشرح
11.6%
28.10%
10.30%
16.6%
15.5%
10.5%
GDPگروتھ ریٹ
405%
7.0%
7.08%
7.50%
4.8%
4.7%
ٹیکس گزار آبادی کے لحاظ سے
3.47%
1.76%
1.2%
2.33%
8.70%
0.45%

ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں TEX to GDP شرح اور ٹیکس پیئرز آبادی کے تناسب کے حساب سے انتہائی کم ہیں۔ٹیکس بڑھانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خودFBRاور اس کا عملہ ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی کل ٹیکس کلیکشن کا 80%انحصارindirect tex پر ہے۔جو کہ ادارے کا براراست ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکامی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔1990سے جو بالواسطہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا رحجان شروع ہوا وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے انکم پر ٹیکس لگانے کا نام ہے مگر یہاں قطع نظر کم یا زیادہ انکم کے ہر شہری سے جبری ٹیکس لیا جاتا ہے۔سیلز ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس نہ صرف عام آدمی پر اضافی بوجھ بن رہے ہیں بلکہ مہنگائی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔کیونکہ سرمایہ دار ہر قسم کا بالواسطہ ٹیکس اشیاء کی قیمت میں جمع کر دیتا ہے۔جب50% ٹیکس بالواسطہ ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھرFBRجیسے ادارے کی ضرورت کیا ہے۔20ہزار سے زائد ملازمین کی کار کردگی کیا ہے؟۔موجودہ ٹیکس پئیرز ہی ایک دوسرے کا ٹیکس کاٹ کر قومی خزانے میں جمع کروا رہے ہیں۔اور FBRکے بغیر تنخواہ کے ملازم ہیںنہ صرف بغیر تنخواہ کے ملازم ہیں بلکہ FBRکے ملازمین ود ہولڈنگ ٹیکس کے آڈٹ کھول کر موجودہ ٹیکس پئیرز پر اپنی دھونس بھی جماتے ہیں۔آج موبائل کارڈ ، بجلی و ٹیلی فون کے بل اشیائے خوردونوش سے لے کر تمام اشیائے ضروریات زندگی کی خرید و فروخت پر بھاری incom texوصول کیا جارہا ہے۔ 2015-2016میں حکومت کا ٹیکس کاٹارگٹ3100 ارب تھا جو کہ 2016-2017میں بڑھا کر3600ارب روپے رکھا گیاہے۔حکومت کا2015-2016کا 3100ارب کا ٹیکس ٹارگٹ کا پور ہونا محض عدادو شمار کے ہیر پھیر کے علاوہ کچھ نہیںFBR کے تمام ریجنل دفاتر نے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں ٹیکس گزاروں سے کم ازکم 200ارب اکٹھا کیا اور ٹارگٹ کو پورا کیا۔جن کے اثرات اگلے مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں دیکھنے کو ملے جہاں ٹیکس کی کلیکشن مایوس کن تھی۔

FBR ٹیکس کو بڑھانے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔تمام بلندو بانگ دعوئوں کے باوجود 2سال میں صرف 125000 نئے ٹیکس گزار نیٹ میں لائے جا سکے جن میں اکثر Nil Filer ہیں۔تاجروں اور ڈیلروں کے لئے متعارف کردہ سکیم بھی بری طرح فلاپ ہو گئی ہیںFBR کی پوری توجہ موجودہ ٹیکس گزاروں پر ہے جن کو ہراساں اور خوف زدہ کر کے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیکس پئیرز کے ساتھ FBRکا سلوک دیکھ کر نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے خوف زدہ ہیں۔میرے خیال میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں بڑی رکاوٹیں درج ذیل ہیں۔

١۔انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس رجسٹریشن میں غیر ضروری تاخیر اور پیچیدہ طریقہ کار نئے ٹیکس گزاروں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے رجسٹریشن کے متعلقہ تمام معلومات آن لان موجود ہیں اس کے باوجود بھی غیر ضروری چیزوں کا تقاضا کیا جاتا ہے۔

٢۔سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس انکم ٹیکس کے بہت زیادہ ریٹ بھی لوگوں کو ٹیکس چوری پر مجبور کرتے ہیںاور وہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہنا پسند کرتے ہیں۔

٣۔موجودہ ٹیکس پئیر ز نہ صرف اپنا ٹیکس ادا کرتے ہیں بلکہ دوسرے لوگو ں کا ٹیکس بھی ودہولڈ کر کے جمع کرواتے ہیں کمپنیوں کے مالکان کمپنیوں کا ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور پھر کمپنیوں کو ملنے والے منافع پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔کیونکہ کمپنی ایک الگ آئسی معنوی شخص ہے۔اور شئیر ہولڈر ایک الگ شخص ہے۔پس ڈبل ٹیکس سے بچنے کے لئے بھی ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں۔

٤۔FBRکی مروجہ پالیسی ہے کہ وہ آڈٹ بھی موجودہ ٹیکس پئیر ز کا کرتا ہے۔آڈٹ کے دوران محکمہ کے ملازمین ٹیکس پئیرز کو ہراساں کرکے اپنی جیبیں بھرتے ہیںاور حکومت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

ٹیکس ریونیوبڑھانے اور مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے حسب ذیل اقدامات ضروری ہیں۔

١۔رجسٹریشن کے نظام کو سادہ کیا جائے ۔رجسٹریشن کے نظام کو اس طرح سادہ کیا جائے کہ رجسٹریشن کروانے والے اور FBR ملازمین کے درمیان ملاقات بالکل ختم ہو جائے۔کیونکہ جب سے سیلز انوائس آن لان ہوئی ہے جعلی انوائس اور انٹری کا چانس تقریباً ناپید ہو گیا ہے۔لہذا اب fake invoiceاور input کاا مکان کم ہے۔ایک بار ٹیکس نیٹ میں انٹری آسان کر دیں ۔پلانٹ کی تصدیق اور بجلی کے بل کی اونرشپ خود بخود ہو جائے گی۔

٢۔indirect texes کو بتدریج کم کر کے ختم کیا جائےsingle stage single digitسیلز ٹیکس کا نظام لایا جائےInput adjust اور ریفنڈ کلچر کو ختم کیا جائے سیلز ٹیکس کا full & find ریٹ 5%سے زیادہ نہ ہو۔
٣۔موجودہ ٹیکس گزاروں کے آڈٹ کی بجائے ٹیکس نیٹ سے باہر ہی ان کا آڈٹ کیا جائے۔نادرا کی مدد سے بنک اکاونٹ کی چھان بین کی جائے۔ مشکوک بنک transsction کے ذرائع آمدن معلوم کئے جائیں۔FBR سسٹم کو گاڑیوں کی رجسٹریشن ،پراپرٹی ٹرانسفر اور ایئرٹکٹ سسٹم سے منسلک کیا جائے۔

٤۔زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کر نے کے لئے ٹیکس ریٹ بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے۔یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد سروسز پر سیلز ٹیکس صوبے اکٹھا کرتے ہیں۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی نے ٹیکس پئیرز کو خوف زدہ کرنے کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے پر توجہ دی جس کے نتیجے میں پنجاب کا خدمات کی مد میں ریونیو صرف آٹھ ماہ میں 2016کی نسبت80%بڑھ گیا اور امکان ہے کہ موجودہ سال کے آخر تک یہ100% تک پہنچ جائیگا ٥۔تاجر حضرات کو اب ٹیکس نیٹ میں لانے میں مزید دیر نہ کی جائے دوکانوں، شاپنگ سینٹرز اور پوش ایریا ز میں واقع مارکیٹوں کو سسٹم میں لایا جائے انکی انکم کے تعین کے لئے نظام واضع کیا جائے۔دکانوں کے کرایے، بجلی کے بل اور ملازمین کی تنخواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انکم Revese calalats کیا جائے۔ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ تاجر حضرات اپنی انکم قابل ٹیکس حد سے کم ظاہر کر کے فائلر ہو جاتے ہیںقابل ٹیکس انکم 4لاکھ سالانہ ہے۔حالانکہ پوش ایریا میں دوکان کا کم از کم کرایہ ایک لاکھ ماہانہ یعنی 12لاکھ سالانہ ہے اور لاہور جیسے شہروں میں پسماندہ ترین علاقہ میں کسی بھی دوکان کا کرایہ اڑھائی لاکھ سے کم نہیں ہے۔

میری تجویز ہے کہ تاجروں کو ٹیکس لگانے کے مسئلہ پر سیاسی پارٹیوں کی APCہونی چاہیے۔کیونکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔تاریخ شاہد ہے جب بھی جس حکومت نے ٹیکس لگانے کی کوشش کی اس پر سیاست ہوئی اور حکومت مخالف جماعتیں تاجروں کے ساتھ کھڑیں ہو گئی ۔اسی موقع پرستی کو ختم کر نے کے لئے ضروری ہے اس مسئلہ پر APCہو اور تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل دیںاور پھر ڈٹ جائیں کیونکہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے مگر سال میں دو عمرے اور 10لاکھ کا میلاد ضرور منعقد کرتے ہیں۔

ہوٹل، ریسٹورنٹ،پرائیوٹ ہسپتال، سکول،اور یونیورسٹیاںآج معقول اور منافع بخش بزنس بن چکے ہیں۔پاکستان میں پرائیوٹ مرکز صحت اور تعلیمی ادارے ایک صنعت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔اکثرسکول اور ہسپتال ٹرسٹ اور NGOکی آڑ میں چل رہے ہیں۔NGOاور ٹرسٹ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ کاروباری مافیا ٹرسٹ اورNGOکی آڑ میں اربوں روپے عوام سے لوٹ کر ارب پتی ہو گئے ہیں۔اگر ان سکولوں اور ہسپتالوں کو ٹرسٹ کی آڑ میں چلنا ہے تو انکو عوام سے فیس نہ لینے دیا جائے۔

ایسے کاروبار جن کی Documentationمیں دشواری ہے ۔ان پر سیلز ٹیکس فوری طوری پر ختم کیا جائے۔کیونکہ ایسے ادارے /کاروبار عوام سے سیلز ٹیکس جمع کر لیتے ہیں مگر ریکارڈ اورDocumentationکی کمزوری کی وجہ سے حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرواتے ۔اسی طرح سیلز ٹیکس کی رقم جو کہ17% ہے ۔سیدھا سیدھا کاروباری حضرات کی جیب میں چلی جاتی ہے۔اسی قسم کی صورت حال FMLGبزنس کی ہے ۔جس میں سیلز ٹیکس عوام کی جیب سے نکال لیا جاتا ہے۔اور حکومتی خزانے میں بمشکل30%جاتا ہے۔90کی دہائی کے بعد جتنے بھی لوگوں نے FMLGبزنس شروع کئے انہوں نے ہر دو سال بعد ایک نئی فیکٹری لگائی۔ایسے کاروبار وں پر ٹیکس نہ صرف مہنگائی بڑھانے کا سبب بنتا ہے بلکہ سرمایہ داروں کا پرافٹ سیل چھپانے کی وجہ سے 17%فوری طور پر بڑھ جاتا ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ دنوں میں پراپرٹی بزنس اور سٹاک ایکسچینج بزنس ٹیکس لاگو ہوتے ہیںمگر اس پر ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر جائیداد کی مارکیٹ قیمتFBRقیمت میں ابھی زمین آسمان کا فرق موجود ہے جو کہ بلیک منی کو چھپانے کا ذریعہ ہے۔اس فرق کو بتدریج کم کیا جائے۔

٩۔ایک جامع امپورٹ ڈیٹا بیس دیگر ممالک سے مل کر قائم کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر ان ممالک کے ساتھ مل کر جہاں سے ہماری امپورٹ زیادہ ہے۔ایسا سسٹم وضع کیا جاسکے کہ انڈر انوائسنگ کم سے کم ہو سکے۔انڈرانوائسنگ misdeclarationکی وجہ سے ہر سال اربوں روپے چوری ہوتے ہیں۔

١٠۔18ویں ترمیم کے بعد زراعت پر ٹیکس صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر صوبائی حکومت ابھی تک متعلقہ قانون سازی کی موجودگی کے باوجود زرعی ٹیکس کے حوالے سے کو ئی خاطر خواہ کا م نہیں کر سکیں۔زراعت پر ٹیکس کے حوالے سے بحث کی ضرورت ہے اور کوئی طریقہ کار بنانا پڑے گا۔

حکومتی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال 4000ارب سے زیادہ کا ٹیکس چوری ہوتا ہے۔یاد رہے کہ یہ ٹیکس چوری کے ا عداد و شمار ہمارے قومی ٹیکس ہدف سے بھی زیادہ ہیں۔اگر ہم ٹیکس چوروں کو 50%بھی کم کر لیں تو ہماری معشیت بہتر ہو سکتی ہے۔محکمہ کی عدم توجہ کی وجہ سے ایک روپیہ قومی خزانے میں اور دو روپے رشوت پر جا رہے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لئے ضروری ہے کہ FBRسٹاف اور ٹیکس گزاروں کے انٹریکشن کو کم کرنے کے لئے جامع ڈیٹا بیس اور الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے نظام کو کنٹرول کیا جائے۔

Talib Hussain

Talib Hussain

تحریر : طالب حسین