تحریر : راشد علی برطانوی فلاحی تنظیم آکسفیم کے ایک تازہ جائزے کے مطابق دنیا بھر میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج ڈرامائی طور پر بڑھتی جا رہی ہے اور صرف آٹھ ارب پتی شخصیات اتنی زیادہ دولت کی مالک ہیں، جتنی 3.6 ارب انسانوں کے پاس ہے امریکی جریدے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں دولت کی غیرمساویانہ تقسیم تیزی سے بڑ ھ رہی ہے اکتیس سال میں امیروں کے کلب میں تیرہ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد 2 ہزار 43 ہے جو گزشتہ سال ایک ہزار 810 تھی۔
ان امیر ترین افراد کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 7.67 ٹریلین ڈالر ہے سرمایا دارانہ نظام کی غیرمساویانہ تقسیم کی وجہ سے دنیا میں امیر اورغریب افراد کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے غریب نیچے کی طرف امیر بلندی کی طرف جارہا ہے انسانوں کی درمیان پیدا ہونے والی یہ تقسیم بہت بھیانک اثرات مرتب کرسکتی ہے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر میں ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں چور دروازے تعمیر کررکھے ہیں جہاں نہ کسی ٹیکس چور کو کوئی پوچھتا ہے اورنہ منی لارنڈرنگ کرنے والے کو اس رہزنی میں سیاست دان ،بیوروکریٹ،جج حضرات ،تاجر ،قانون دان اورفلمی ستارے شامل ہیں سرمایہ دار مافیا اپنے زر کو چھپانے کے لیے Tax Havenکا رخ کرتے ہیں اس Tax Havenکو عالمی سرمایا دار قوتوں نے اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔
اس حرام کالے دھن کو حلال کرنے کے لیے چند جزیروں اورممالک کا انتخاب کیا جاتا ہے یہ ممالک چوروں کے لیے سہولت کاری کے فرائض سرانجام دیتے ہیں یہ اپنے کلائنٹ کو کسی بھی قسم کے سوال سے بچنے کے لیے ممکنہ اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہیں کسی بھی ملک کے قوانین کے اطلاق ان سہولت کارریاستوں اوراداروں پر نہیں ہوتا باہر سے آنے والی دولت پر نہ تو کسی مقامی ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے، نہ ہی مالیاتی ادارے لانے والے کو ایسا پوچھتے ہیںکہ یہ دولت کن ذرائع سے حاصل ہوئی ہے بلکہ رقوم کا سائز دیکھ کر اپنے کلائنٹ کو کسی سوال سے شرمندہ نہیں ہونے دیتے بلکہ خود ہی دولت کو محفوظ اور گمنام طریقے سے محفوظ کرنے کے طریقے اور ہر طریقے کے چارجز بتا دیتے ہیں جس سے کلائنٹ کا اپنا نام کہیں بھی اکائونٹ ہولڈر یا کمپنی ڈائریکٹر کے طور پر سامنے نہیں آتاان ممالک میں سوئٹزر لینڈ ،برطانیہ کے زیر کنٹرول چینل آئس لینڈ آف جوسی ہے۔ اس کے علاوہ گرنسی، سنگاپور، بحرین، برمودہ، یورنیو کے ساحل سے ٹکراتا ہوا ملائیشیا کا ایک جزیرہ لیوآن، کے ہین آئس لینڈ، ہانگ کانگ، سائپرس ،امریکی ریاست نویدا ایسے خطے ہیں جہاں دنیا بھر سے کالا دھن لے جاکر پردوں کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے پانامہ لیکس اورپیرڈائز لیکس میں ان دھن چوروں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید لیکس آتی رہیں گی یہ لیکس سرمادارنہ نظام کے منہ پر طمانچہ ہے موجودہ نظام امیر آدمی کے لیے سہولت کاری کرتا ہے اورغریب کو غلامی کے شکنجے میں جکڑ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ بین الاقومی دنیا عدم مساوات کا شکار ہے ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک ٹیکس چھپانے والی سکیموں کے چکر میں سالانہ100ارب ڈالر سے محروم ہو جاتے ہیں یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ جس کے صحیح استعمال سے12 کروڑ 40لاکھ تعلیم سے محروم بچوں کو اسکول میں تعلیم دی جا سکتی ہے60لاکھ بچوں کو صحت کی بہترین سہولتیں مہیا کی جاسکتی ہیں ایکشن ایڈ کے اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک ٹیکس کی پرکشش مراعات کی آڑ میں 138 ارب ڈالرسے محروم ہو جاتے ہیں۔
آکسفام کی رواں سال ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 3ارب60کروڑ لوگوں میں صرف62افراد اتنی بڑی رقم کے مالک ہیں۔ یہ وہ بدترین اور سنگین اعداد و شمار ہیں جو معاشی ترقی کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہیںمعاشی ناہمواری کی ان بدنما مثالوںکی موجودگی میں عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی غربت کی لکیر کو کم کرنا ناممکن ہے پاکستان کو ٹیکس چوروں کی جنت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا یہاں غریبوں سے بھرپور ٹیکس وصول کیا جاتاہے مزدور طبقہ کا خون رات دن سینچا جاتا ہے مگر بااثر وڈیرے ،سیاست دان ،بیورکریٹ ،تاجران اپنی آمدن کے عین مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے مقتدر حکومت الیکشن کے دوران بھرپور معاشی خوشی حالی کا چورن فروخت کرتی رہی مگر معاشی نمو بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتی چلی گئی ہر آنے والی حکومت نے بااثرافراد سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے قرضوں کا سہارا لیا موجودہ حکومت نے بھی یہی کارنامہ سرانجام دیا یہی وجہ ہے پاکستان کا مجموعی قرضہ 18ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے کشکول توڑنے والی موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں میں پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے دوسری جانب جناب اسحاق ڈار صاحب کی آمدن میں بھی غیر معمولی اضافہ ان کے تجربہ کار اورباصلاحیت وزیر ہونے کی بے مثال دلیل ہے۔