تحریر : سید توقیر زیدی گورنر سٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو اندرونی خطرات کا سامنا نہیں رہا حکومت ٹیکس آمدن بڑھانے کے لئے مزید اقدامات کرے ملکی اقتصادی صورت حال گزشتہ دو برسوں سے بہتر ہو رہی ہے اور یہ تسلسل جاری ہے شرح سود کم ترین سطح پر ہے۔ سرمایہ کار اس موقع کا فائدہ اْٹھاتے ہوئے کاروبار کو وسیع کریں، امن و امان کی صورتِ حال میں بہتری، توانائی بحران میں کمی اور پاک چین معاشی راہداری منصوبے شروع ہونے کے باعث نئے پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کا بہترین موقع ہے محدود وسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت کو محصولات میں اضافے کے لئے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
رواں سال بجٹ خسارہ محدود کر دیا گیا اور افراطِ زر کی شرح میں جلد اضافے کا خدشہ نہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے انکشاف کیا کہ کارپوریٹ سیکٹر مجموعی طور پر خاصا سیال ہے اور سرمایہ کاری کے قابل رقوم فاضل مقدار میں موجود ہیں، معیشت نے4فیصد سے زیادہ شرح نمو سے ترقی کی ہے، معاشی استحکام اس بحالی کا نمایاں وصف رہا ہے۔ ناگزیر عوامی اخراجات پر سمجھوتہ کئے بغیر بجٹ خسارہ قابو میں رکھا گیا ہے۔ زرمبادلہ مناسب مقدار میں اکٹھا ہوا ہے اور پہلی بار زرمبادلہ کے ذخائر20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔انہوں نے اِن خیالات کا اظہار پاکستان سٹاک ایکسچینج کی گھنٹہ بجانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
گورنر سٹیٹ بینک کا حکومت کے لئے یہ مشورہ تو بہت صائب ہے کہ ٹیکس بڑھانے کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں، لیکن عملی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے لئے جو بھی اقدامات کر رہی ہے وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے،اس وقت مْلک کی آبادی کم و بیش 20کروڑ ہے، جن میں سے تقریباً دس لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں، ان میں سے دو تہائی تو وہ تنخواہ دار ٹیکس گزار ہیں، جن کا ٹیکس پہلے کٹتا ہے اور تنخواہ بعد میں ملتی ہے، اسی طرح جو بھی لوگ سرکاری خزانے سے اپنی خدمات یا اشیا کی سپلائی وغیرہ کا چیک وصول کرتے ہیں وہ بھی ٹیکس کاٹنے کے بعد ملتا ہے۔
State Bank
حکومت کئی سال سے کوشش کر رہی ہے کہ ٹیکس نیٹ وسیع کیا جائے،ویسے تو یہ تعداد زیادہ بڑھنی چاہئے، لیکن حکومت اسے کم از کم دو گنا کرنا چاہتی ہے، اس مقصد کے لئے رضا کارانہ طور پر ٹیکس دینے کی سکیم شروع کی گئی ہے، لیکن اس سے بھی پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ، توقع سے بہت کم لوگ رضا کارانہ طور پر ریٹرن فائل کر رہے ہیں، حالانکہ اس میں تاجروں کو بہت زیادہ سہولتیں دی گئی ہیں اور معمولی ٹیکس دے کر وہ اپنی رقم کو سفید کرسکتے ہیں۔ملک میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی شرح بھی کم از کم دو گنا کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت بہت کم ہے۔
گزشتہ کئی سال سے یہ ہو رہا ہے کہ بجٹ میں رکھا گیا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا نہ ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر نظرثانی کر کے کم کر دیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نظرثانی شدہ ہدف بھی حاصل نہیں ہو پاتا، حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجٹ میں ٹیکس جمع کرنے کا جو ہدف رکھا جاتا ہے کم از کم اس سے دْگنا حاصل ہو تو ملکی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اس وقت جو ٹیکس جمع ہوتاہے اس کا50فیصد تو قرضوں کے سود کی ادائیگی (ڈیٹ سروسز) میں خرچ ہو جاتا ہے، اس کے بعد دفاعی اخراجات ہیں، 500اور1000، ارب کے درمیان وہ سرکاری ادارے اور کارپوریشنیں کھا جاتی ہیں،جو خسارے میں چل رہی ہیں، سال ہا سال سے یہ خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور فوری طور پر اِن اداروں کے منافع میں جانے کا امکان اِس لئے بھی کم ہے کہ وہ اسباب بدستور موجود ہیں جن کی وجہ سے خسارہ ہوتا ہے۔
خسارہ تو اسی صورت ختم ہو گا جب ان اسباب کا خاتمہ ہو،اس کے بغیر جادو کی کوئی چھڑی نہیں جو خسارے میں چلنے والے اداروں کو راتوں رات منافع بخش بنا دے، حکومت اگر کوئی اقدامات اٹھاتی ہے، جو اس کے خیال میں اداروں کو خسارے سے نکال سکتے ہیں تو انہیں شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جواب میں کوئی متبادل بھی پیش نہیں کیا جاتا۔نتیجہ یہ ہے کہ چند مدات کو چھوڑ کر باقی تمام ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات قرضے لے کر پورے کئے جاتے ہیں، قرضوں کی اس سرکاری پالیسی پر نکتہ چینی تو کی جاتی ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ قرضے نہ لئے جائیں تو اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔۔؟ یہ درست ہے کہ حکومت کو اپنے اخراجات اپنے وسائل کے اندر رہ کر پورے کرنے چاہئیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وسائل بڑھانے کی جدوجہد بھی کرنی چاہئے، جس کا بڑا ذریعہ ٹیکس ہیں، چونکہ ٹیکس نیٹ وسیع نہیں ہو رہا اِس لئے بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ٹیکس کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
Taxes
نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں اْن پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔اس و قت موبائل فون میں100روپے کا جو کارڈ لوڈ کیا جاتا ہے اس میں سے 24،25 روپے مختلف ٹیکسوں کی صورت میں کٹ جاتے ہیں، حالانکہ آج کل موبائل غریب مزدوروں سے لے کر کم آمدنی والے سب لوگ یہ استعمال کرتے ہیں، لیکن حکومت نے یہ فرض کر رکھا ہے کہ جو شخص بھی موبائل فون کا استعمال کرتا ہے وہ دولت مند ہے، حالانکہ عملی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ آج کل دیہاڑی دار مزدور اور کم آمدنی والے بھی اس کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں کہ اْن کی دیہاڑی اور مزدوری کا انحصار بھی اس فون پر ملنے والی کال پر ہوتا ہے۔
صاحبِ ثروت لوگوں کو ٹیکس میں لانے کی جو کوشش حکومت نے حال ہی میں کی ہے اس میں بھی اْسے کوئی زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، عالمی منڈی میں تیل کی بے قدری کی وجہ سے تیل سستا تو ضرور ہو رہا ہے اور پاکستان میں بھی حکومت نے تیل کے صارفین کو کمی کا فائدہ منتقل کیا ہے، لیکن یہ فائدہ زیادہ بھی ہو سکتا تھا اگر حکومت ٹیکس میں اضافہ نہ کرتی، چونکہ یہ بالواسطہ ٹیکس جمع کرنا آسان ہے، اِس لئے حکومت نے بھی اسی پر زور رکھا ہوا ہے، سٹیٹ بینک کے گورنر کے مشورے کی روشنی میں ٹیکس نیٹ وسیع کیسے ہو گا۔۔۔؟ اس میں حکومت کا امتحان ہے۔