تحریر : سید توقیر زیدی ترکی کے صدر طیب اردوان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات بہت خاص ہیں’ ہم صرف الفاظ تک ہی نہیں، حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں’ مشکل وقت میں مدد کرنے پر پاکستانیوں کو فراموش کیا نہ کبھی کریں گے’ ہولناک زلزلے میں سب سے زیادہ مدد پاکستان نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ انتہا پسند تنظیمیں صرف مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچا رہی ہیں، دہشت گردی کے خلاف ہمارا تعاون جاری رہنا چاہیے۔ اس سے قبل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ترکی کے بہادر عوام نے جرات کے ساتھ اپنے آئین کا تحفظ کیا۔ دونوں ملکوں کے عوام اور افواج نے بہادری سے دہشتگردی کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر ترک صدر کے جرات مندانہ موقف نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان کا ریکارڈ تیسری بار پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اس امر کا ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین بے حد قریبی تعلقات قائم ہیں۔
ترک صدر کا حالیہ دورہ’اور اس دوران پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی’ مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور’ لائن آف کنٹرول پر مسلسل بھارتی جارحیت پر تشویش کا اظہار اور ہر مشکل وقت میں ترک عوام کی مدد پر پاکستانی عوام سے اظہار تشکر’ ان تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا باعث بنیں گے۔ ترک صدر ایک ایسے وقت پر پاکستان تشریف لائے جب بھارت نے سرحدوں کو گرم کر رکھا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا’ جب اس کی فورسز کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ نہیں کی جاتی۔ اس بے وجہ فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے اب تک پاکستان کا خاصا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی فورسز کی اس حرکت پر احتجاج کیا جاتا ہے’ لیکن بھارت پر اس احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی جانب سے مسلسل ہٹ دھرمی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ترک صدر کا اپنے خطاب میں لائن آف کنٹرول اور مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان مسائل اور معاملات کی سنگینی اور حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا پْر امن حل تلاش کیا جائے۔
Pakistan and Turkey
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ خود ترکی بھی قبرص کے حوالے سے ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے’ جیسی کشمیر کے سلسلے میں پاکستان۔ صرف یہی نہیں ‘ بہت سے دوسرے مسائل بھی ایسے ہیں جن میں پاکستان اور ترکی کو یکساں صورتحال کا سامنا اور معاملات درپیش ہیں’ جیسے جمہوریت کے استحکام کا ایشو’معاشی استحکام کے تناظر اور ارد گرد کے ممالک کی صورتحال اور ان کی پالیسیاں؛ چنانچہ معزز مہمان کی ا?مد ہمارے لیے باعث تقویت و سکون ہے۔یہ بات برملا اور ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ ترکی’ چین اور سعودی عرب’ پاکستان کے تین ایسے دوست اور خیرخواہ ممالک ہیں’ حکومتیں تبدیل ہو جانے کے باوجود ہمارے ساتھ جن کے دوستانہ تعلقات برقرار رہتے ہیں۔ حکومتوں کی تبدیلی اس پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ امید کی جاتی ہے کہ صدر طیب اردوان کا یہ دورہ پاکستان اور ترکی کے باہمی تعلقات کو ایک نئی سمت دینے اور پہلے سے گہرے دوستانہ تعلقات کو مزید گہرا بنانے کا باعث بنے گا۔
بدھ کے روز محترم مہمان کی پاکستان آمد کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے پہلے ون ان ون ملاقات اور پھر مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور ترکی تجارتی تعلقات کو بھی آگے بڑھائیں گے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ کنٹرول لائن پر گہری نظر اور صورتحال پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔
طیب اردوان نے بتایا کہ 2017ء تک پاکستان اور ترکی آزادانہ تجارت کا معاہدہ کر لیں گے۔ یہ بات پورے وثوق اور تیقن سے کہی جا سکتی ہے کہ آزادانہ تجارت کا معاہدہ پاکستان اور ترکی کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دے گا۔ چند سال پہلے ترکی پورے یورپ سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک قرار پایا تھا۔ ترکی کے اس تجربے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان بھی اپنی معیشت کو مستحکم بنا سکتا ہے۔