تحریر : محمد یعقوب غازی شاید کسی کے ذہن میں یہ ہو کہ پیارا چائے والا کا اس طرح مشہور ہوجانا کوئی اتفاقی معاملہ ہے ۔ نہیں ہر گز نہیں ! یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیارا چائے والا شہوت پرستوں کی شہوت کا نشانہ بنا ۔ اسطرح انہوں ایک تیر سے دو شکار کئے نمبر ایک اسے حلال کمائی سے ہٹاکر حرام کی کمائی پہ لگادیا نمبر دو پوری مسلم برادری کو اسطرف لانے کی کوشش کہ اصل کامیابی یہ ہےجسے پیارا جیسے سمیٹ چکے۔ حلال کمائی چھوڑو اس بہودہ کمائی کی طرف آؤ جہاں خوبصورتی کی قیمت لگتی ہے ، اور جہاں خوبصورتوں کی منڈی لگتی ہے اور جو چاہے اپنی من مانی قیمت پہ لے جائے ۔میں کیا کہوں ؟ کیا لکھوں ؟
میں کیسے سمجھاؤں کے ہمارے آباؤ اجداد حیاء کے مجسمے تھے کے شہوت پرستوں کی قید سے بھی اپنے آپ کو شہوت پرستوں سے بچا لاتے تھے حضرت یوسف علیہ السالام ہوں یا حضرت لوط علیہ السلام ۔ آج حالت یہ ہے کہ میرے گھر میں میرے محلہ میرے نوجوانوں کو اپنی شہوت کا شکار کرلیا جاتا ہے اور ہم بے بس کھڑے ہوتے ہیں۔ افسوس کر رہے ہوتے تو بھی تھوڑا پردہ رہ جاتا لیکن حد تو یہ ہے میرے نبی ﷺ کی امت یہ کہہ رہی ہو :تو اس جگہ کیلئے نہیں تیرے حصے کا آسمان کہیں اور ہے۔
پیارے! مجھے تیری بد قسمتی پہ افسوس ہے کہ تو اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے حلال طریقہ سے کمارہا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا :اپنے ہاتھوں سے محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے ۔ اور غیبی طور پہ تیرے ہاتھوں پہ اللہ کے حبیبﷺ کا بوسہ مبارک پڑ رہا تھا کہ ایک محنت کش کی ہاتھوں پہ بنے سخت نشانات پہ آپﷺ نے بوسہ دیا اور میرا یقین ہے یہ بوسہ ہر اس محنت کش کی ہاتھوں پہ ہے جو محنت کرکے کماتا ہے۔
Hazrat Muhammad PBUH
پیارے! تیری بد قسمتی نے تیرے ساتھ وہ ہاتھ کھیلا کہ تجھے محنت کرنے والوں کی صف سے ہٹاکر حسن بیچنے والوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ پیارے! یقین کر تیرے ساتھ دھوکا ہوا ہے تیرے حصے کا آسمان تیری محنت کے اندر ہے نہ کہ شہوت پرستوں کی آماجگاہ میں ۔پیارے ! تیرے آباؤاجداد(جن کے طفیل اسلام ملا) حسنِ باطنی کے بیوپار تھے اور تو حسنِ ظاہری کا سوداگر بن چکا ۔پیارے ! تیرے کتنے بھائی ہیں جو محنت مزدوری کرکے اس دنیا سے اللہ کے دربار میں سرخرو ہوکر جا چکے کہ اے میرے اللہ! میں دنیا کے تمام ہتھکنڈوں سے صحیح سلامت بچ کے آگیا۔
یا اللہ ! میں دنیا کے شہوت پرستوں کی نشانے سے بچ بچا کے تیرے پاس آچکا ۔ پیارے! اگر مالداری ،پیسہ دھن ،دولت کامیابی کا مدار ہوتیں تو آپ ﷺ یہ دعا کثرت سے نہ فرماتے: اے اللہ! مجھے غریبوں میں زندہ رکھ ، اور غریبی کی حالت میں موت دے ، اور قیامت کے دن غریبوں کی صف میں اُٹھا۔
پیارے! ابھی بھی وقت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح انکی چنگل سے بچ کے نکل جا کہیں دیر نہ ہوجائے ۔ کہیں دیر نہ ہوجائے کہیں دیر نہ ہوجائے کہیں دیر نہ ہوجائے کہیں دیر نہ ہوجائے۔