ہمارے یہاں ووٹ کو بھی عزت ملتی ہے اور ووٹر کو بھی (ووٹ سے پہلے) عزت ملتی ،سیاستیوں کو بھی بعض لوگ اتنی عزت دیتے ہیں کہ اپنی عزت دائو پر لگادیتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ۔۔۔ہم عزت نہیں دیتے تو صرف اور صرف استادکو، جوکہ عزت کا صحیح حقدارہے۔ہماری قوم نے استاد کو عزت نہیں دی توآج علم، ہنر، کمال اورحکمت سے تہی دامن ہوئی ۔حکومت وقت نے استاد کو وہ مقام نہیں دیا،جس کاصحیح معنوں میں وہ حقدارتھا، نتیجہ یہ ہواکہ آج ملک کے نظم ونسق چلانے والے نایاب ہیں۔دنیاکی سب سے تہذیب یافتہ قوم، جنہوں نے زندگی کے ہرمیدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دئے تھے، آج تہذیب، تمدن اورعلم وفن میں دنیاکی دوسری اقوام سے پیچھے کیوں ہے۔وجوہات شاید اوربھی ہوں لیکن آج میں اس زوال کے کچھ بنیادی اسباب واضح کرتا ہوں۔
Bureau of Labor Statistics (2017) کی رپورٹ کے مطابق امریکی شہرنیویارک میں پرائمری سکول ٹیچرکی سالانہ تنخواہ 72,930ڈالربنتی ہے،جوپاکستانی کرنسی میں 8954710 یعنی تقریباً نوے لاکھ روپے بنتی ہے۔اسی حساب سے ایک پرائمری سکول کے استادکی ماہانہ تنخواہ سات لاکھ چیالیس ہزارروپے بنتی ہے۔سویٹرزلینڈاورجرمنی میں استادکی اوسط ماہوارتنخواہ چھ لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ ہے۔اسی طرح یوکے، ناروے اورسنگاپورمیں استادکی اوسط ماہانہ تنخواہ تقریباً پانچ لاکھ پاکستانی روپے ہے۔جرمنی، اسٹریلیا، جاپان ،فن لینڈ، پولینڈ، ملائشیامیں استادکی اوسط ماہوارتنخواہ تقریباً چارلاکھ پاکستانی روپے ہے۔فرانس ، چائنا،سعودی عرب،کوریااورکنیڈامیں استادکی اوسط تنخواہ تقریبا ًتین لاکھ روپے ہے ۔اسکے بعدایسے ممالک کی فہرست ہے، جن میں استادکی اوسط تنخواہ دولاکھ روپے کے لگ بھگ ہے، ان میں اٹلی،اسٹریااورپرتگال کے ممالک شامل ہیں۔انڈونیشیا میں ایک لاکھ روپے اورتھائی لینڈجوکہ ترقی کے سفرمیں پاکستان کے ساتھ ساتھ چلتاہے کبھی پیچھے اورکبھی آگے، وہاں استادکی اوسط تنخواہ پینسٹھ ہزارروپے ہے۔ایران اورسری لنکامیں استادکو اوسط پینتیس ہزارروپے ماہوارملتی ہیں جبکہ پاکستان میں استادکواوسط پچیس ہزارروپے تنخواہ ملتی ہے۔
اب آپ خودسنجیدگی سے وطن عزیزمیں استادکے ساتھ قوم اورحکومت کے ظالمانہ روئے کاجائزہ لیں اورانکاموازنہ دنیاکے دیگرممالک کے ساتھ کریں، تویہ امرخودبخودواضح ہوجائے گاکہ ہمارے زوال کابنیادی سبب کیاہے۔ہم تعلیم کے میدان میں دیگراقوام سے پیچھے کیوں ہیں اورہماراتعلیمی نظام روبہ زوال کیوں ہے۔
اب ذراپاکستان کے اندراستاد کادیگرملازمین کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں ایک استادکوحکومت کی طرف سے مراعات ملتے ہیں اوردوسری طرف دیگرمحکموں میں بھرتی ملازمین کو کس طرح مالامال کیاجاتاہے۔پاکستان میں ایک استادکی اوسط تنخواہ ایک پولیس سپاہی ، سیکرٹریٹ کی سطح پر درجہ چہارم ملازم ،کسی معمولی وزیر کے سیکرٹری یاپی اے کے مقابلے میں کس قدرکم ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کے دورمیں حکومت نے طب کے شعبے میں اصلاحات کئے۔ ایک عام ڈاکٹرکی تنخواہ پچاس ہزارسے بڑھاکر ڈیڑھ لاکھ کردی ۔اسی طرح ڈاکٹروں کے ماتحت کام کرنیوالے عملے کی بھی ہیلتھ اوردیگرالاونسز کے ذریعے تواضع کی گئی ۔ایک معمولی بیوروکریٹ کی تنخواہ اورمراعات کاحال جان کرانسان کے ہوش اڑجاتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہے کہ یہ تمام لوگ کام کرتے ہیں جبکہ استادکوئی کام نہیں کرتااورنہ ہی اسکی کوئی اہمیت ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت نے این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی اساتذہ کے لئے سروس سٹرکچرنام کی کوئی چیز بھی نہیں بنائی ہے۔ اساتذہ کو دھڑادھڑبھرتی کیاجاتاہے لیکن انہیں ایساکوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتاجوایک سرکاری ملزم کوحاصل ہوتاہے۔ اسی طرح ہزاروں کی تعدادمیں اساتذہ کی تقرری دوردرازمخصوص تعلیمی اداروں میں کیجاتی ہے جہاں وہ کئی کئی سال تبادلے، مستقل ہونے اوردیگرمراعات کے لئے حکومتی احکامات کے منتظرہوتے ہیں۔استادکاسب سے پہلاحق یہ ہے کہ اسکی تقرری ابتدائی طورپر مستقل بنیادوں پر عمل میں لائی جائے اورانہیں پرکشش تنخواہ اوردیگرالاونسزدئے جائے تاکہ وہ مالی طورپر مستحکم ہواورذہنی آسودگی سے مالامال ہوکراحسن طریقے سے قوم کی خدمت کرسکے۔
استادکاسب سے زیادہ استحصال نجی تعلیمی اداروں میں ہوتاہے، جہاں عام طورپر کم وبیش دس ہزارروپے ماہانہ تنخواہ پر اس سے پورادن بچوں کو پڑھایاجاتاہے۔ایک طرف یہ تعلیمی ادارے والدین سے منہ مانگی فیس وصول کرتے ہیں ،جس کے لئے کوئی قانون وضابطہ اورکوئی فیس شرح موجودنہ ہے جبکہ دوسری طرف معمولی سے تنخواہ دیگراستادکامذاق اڑاتے ہیں۔استادکے ساتھ اس ظالمانہ سلوک کی ذمہ داراگرایک طرف حکومت وقت ہے تودوسری طرف بحیثیت قوم ہم بھی اس جرم میں برابر شریک ہیں۔