تحریر: روشن خٹک آج سے پچاس سال پہلے راقم الحروف شاگرد تھا تو استاد کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے کی ہمت نہیں تھی، بعد ازاں درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا، استاد بنے تو شاگرد وں نے ادب و احترام کی وجہ سے کبھی آنکھ اٹھا کر بات نہیں کی مگر گزشتہ تین چار دہائیوں سے جہاں اور بہت ساری برائیاں ہمارے معاشرے میں شامل ہو ئی ہیں ۔وہاں ایک بڑی برائی استاد اور شاگرد کے درمیان رشتہ کی اہمیت کی کمی اور اس کے تقدس کا پامال ہونا ہے۔اس سلسلے میں جہاں اساتذہ سے اپنا مقام سمجھنے میں کو تاہی ہو رہی ہے۔
وہیں شاگرد بھی ان کو اپنا مقام عطا کرنے میں کو تاہی کر رہے ہیں ، جس کیوجہ سے آئے دن شاگرد اپنے اساتذہ کے ساتھ بد تمیزی اور گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔چناچہ اس بارے میں اگر ایک طرف پوری دنیا کے ذی حس لوگ فکر مند ہیں تو دوسری طرف اس مرض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پو را تعلیی ڈھانچہ اس قدر متاثر ہواہے کہ تعلیمی ادارے اور ان سے فارغ ہو نے والے طلباء بہت ساری خرابیوں کے مو جب بن رہے ہیں۔ اگرچہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہو نے والے طلبا عملی مشین یعنی ڈاکٹر، انجینئرز، سیاستدان وغیرہ تو بن جا تے ہیں لیکن تعلیم کا جو اصل مقصد ہے،وہ مقصد ان میں نہیں پایا جاتا، تعلیم کا مقصد انسانیت کی تکمیل ہے، تعلیم ایک ایسا ہنر ہے ، جس سے ماہرینِ خصوصی نہیں بلکہ انسان بنائے جاتے ہیں۔
چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف شعبہ جات میں ماہرین یعنی ڈاکٹر، انجینئرز، پرہفیسرز اور سیاست دان تو بنائے جا رہے ہیں ، لیکن ان تعلیمی اداروں میں انسان کی اصل تعمیر نہیں ہو رہی ہے ۔جس کی وجہ سے آج وطنِ عزیز میں ہر طرف افراتفری پھیلی ہو ئی ہے، چپڑاسی سے لے کر صدر اور وزیر اعظم تک امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، مادی منفعت اور خود غرضی کی بناء پر رشتوں اور تعلق کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔تعلیم تو انسان کے سکون کا ایک ذریعہ ہے مگر افسوس کہ آج کی تعلیم سکون دینے کے بجائے بے سکونی کا باعث بن رہا ہے۔
Student
صحیح معنوں میں اگر ایک طالبعلم کو تعلیم نہ ملے تو انسان جانوروں سے بھی بد تر صورت اختیار کر سکتا ہے۔ جس کا عملہ نمونہ آج ہم خود بنے بیٹھے ہیں ۔انسان دوسرے انسان کو ذبح کر رہا ہے، روزانہ لاکھوں انسان دوسرے انسان کے ہا تھوں دم توڑ رہا ہے۔ ایسا تو جانور بھی نہیں کرتے جو کچھ آج کا انسان کر رہا ہے۔ جبکہ تعلیم کا مقصد انسان کو کھری، پر خلوص،بے عیب اور پاک صاف زندگی بسر کرنے کے قابل بنا نا ہے۔ آج ہمارے سیاست دان اور حکمران تبدیلی کے دعوے کرتے رہتے ہیں ، یہ سب کھو کھلے دعوے ہیں ، تبدیلی تب آسکتی ہے جب ہم اپنے طلباء کو صحیح معنوں میں تعلیم دیں گے ،ایسی تعلیم جو ان کو ایک مکمل انسان بنائے،پھر پاکستانی معاشرے میں ایک واضح عملی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ اگر چہ موجود ہیں ،لیکن استاد کے معنی کیا ہیں ؟ استاد کا مقام کیا ہے ؟ اور اس کے حقوق طلباء پر اور طلباء کے حقوق استذہ پر کیا ہیں َ؟ اس سے آج کے طا لبعلم اور استاد کا دور دور کا کو ئی واسطہ نہیں ، سچ تو یہ ہے کہ اب نہ کو ئی استاد رہا نہ شاگرد، یہ رشتہ اب دنیا سے نیست و نا بود ہو چکا ہے، یہ رشتہ تو بہ مثل ” باپ بیٹے کا ” رشتہ تھا۔ استاد جو روحانی باپ کے مرتبہ پر فا ئز تھا، اسے اب چند روپیوں کے عوض ایک ملازم تصور کر کے اس سے ملازمت کروائی جاتی ہے۔
Teacher with Student
اساتذہ بھی اپنے مقصد اور مرتبہ سے اس قدر دور نکل چکے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ملازم اور شاگرد کو پیسہ دینے والا مالک بنا نے میں ہی اپنی بہتری سمجھتے ہیں اور اپنا فرض اور مقصد بھلا بیٹھے ہیں آج ہم اپنے گھر اور معاشرے کی تباہی کا جو منظر دیکھ رہے ہیں، یہ سب بے مقصد تعلیم دینے کا نتیجہ ہی تو ہے اگر ہمارے حکمران خلوص دل سے ملک یں تبدیلی لانے کے آرزو مند ہیں تو تبدیلی آسکتی ہے لیکن اس کے لئے سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا اور سوچ کو کو تبدیل کر نے کے لئے طریقہ تعلیم اور تعلیم کے نظام میں تبدیلی لانا ہو گی، ہر شخص کو وہ مقام دینا ہو گا جو اس کا حقدار ہے اور ہر اس محدود خیال سے اپنے آپ کو آزاد ہو کر لامحدود شئی کو تسلیم کرنا ہوگا جس کی لا محدودیت میں انسان اور انسانیت کی بقاء اور کا میابی کا راز مضمر ہے۔
اور یہ سب کچھ ہمارے مذہب اور دینی تعلیمات میں مو جود ہے، اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دین و دنیا کی تفریق ختم کر کے ایک ایسے تعلیمی نظام کا قیام ضروری ہے،جس سے انسان کی تعمیر ہو سکے، ہنر مندی کے ساتھ ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک نمونہ قائم کیا جا سکے،جس سے ایک دھو کے باز ،کرپٹ اور جھوٹا سیاست دان کے بجائے ایک با کردار اور پر خلوص سیاستدان پیدا ہو جائیں۔
ایک ایسا ڈاکٹر اور انجینئر پیدا ہو سکے جو لوگوں کا علاج نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائے بلکہ اس کا یہ کام عبادت کا مر تبہ پائے، استاد اپنے شاگردوں کا روحانی باپ جیسا بن کر ان کی روحانی تربیت کا ذریعہ بن جائے اور تعلیم سے شاگرد کو اس طرح آراستہ کرے کہ وہ شاگرد ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدان بھی بن جائے مگر اس کی انسانیت بھی باقی رہے۔