تحریر : ایچ آر مصور مغرب سال میں کئی ایک ایسے روز مناتا ہے جو کسی نہ کسی سے منسوب ہوتے ہیں۔ اس سے وہ اپنی تہذیب کو دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور میڈیا کے ذریعے سب پر مسلط کرتا ہے۔ 5 اکتوبر کا دن عالمی سطح پر ٹیچر زڈے کے طور پر منایا جاتا ہے، پاکستان میں بھی یہ دن سلام ٹیچر کے نام سے منایا جاتا ہے، یہ روایت مغرب میں تو پرانی ہے البتہ یہاں یہ اتنی پرانی نہیں سب پہلے 2007ء کو یہ دن یہاں باقاعدہ طور پر سلام ٹیچر کے نام سے منایا گیا۔ اچھی بات ہے کہ اساتذہ کے احترام میں زیاد ہ نہیں تو کم ازکم سال میں ایک دن تو منایا جائے ۔استاد کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے، اس کی حیثیت بیان کرنے کے لیے قلم کی روشنائی بھی کم محسوس ہوتی ہے ، کیونکہ ہمارے پیارے نبی ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”انا معلم’ ‘ (میں استاد ہوں) جب ایک ایسی ہستی استاد ہونے کی بات کرتی ہے جس کی مدحت میں لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی ہوں اور لاکھوں کتابیں لکھی جارہی ہوں تو اس مقام کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔
دوسری جانب جب ہم تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ استاد کس کو کہتے ہیں ؟استاد کی تاریخ کیا ہے ؟ٹیچر ڈے کی تاریخ تو سب جانتے ہیں ،استاد کی تاریخ کے بارے میں کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے ؟تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا سب سے پہلا استاد اللہ تعالیٰ خودہے ۔قرآن اس کا تذکرہ یوں کرتا ہے کہ ”و علم ادم الاسماء کلہا” (آدم کو سارے نام سکھادیے) ۔یہ وہ منصب ہے جس کا آغاز اللہ رب العزت نے براہ راست کیا ہے ۔اس کائنات کا پہلا دن استاد کا دن ہے ،انسان کا پہلا دن استا د سے وابستگی کا دن ہے اور آخری دن تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
اللہ رب العالمین نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ان انسانوں میں سے ہی معصوم لوگوں کو نبوت کے منصب پر فائز کرکے بطو ر استاد اس معاشرے کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا ۔مختلف اوقات میں آنے والے ان اساتذہ کی تعداد کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے ۔ اس کی تصدیق نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”انا معلم” (میں استاد ہوں) ایک ایسا استاد جس نے اپنے استاد کا دیا ہوا سبق تمام عالم انسانیت کوبڑی ایمانداری کے ساتھ من و عن اسی طرح پہنچایا جس طرح اس کے استاد نے اسے سکھایا تھا اس میں کہیں کوئی خیانت نہیں کی۔
Teacher
ہمیں یہ سکھایا کہ استاد انسانیت کے ہر پہلو کو مد نظر رکھے ، اس کے خوبصورت تعمیر کے گر لوگوں کو سکھائے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی خیانت نہ کرے۔ معاشر ے میں عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ استاد اس شخص کا نام ہے جو لکھنا پڑھنا سکھاتا ہے یاکوئی ہنر سکھاتا ہے۔ اس میں قصور اس معاشرے کی سوچ کا نہیں بلکہ اسی استاد کا ہے جس نے خود کو لکھنے ،پڑھنے ،یا دکرانے یا ہنر سکھانے تک محدود کیا ہے ۔ان اداروں کا ہے جو تعلیم کے نام پر کاروبار کرتے ہیں اور لکھنا پڑھنا ہی سکھاتے ہیں حالانکہ استاد تو درس و تدریس کے ساتھ معاشرتی معاملات ، اخلاقیات، سیاسیات ، روایات ، تہذیب و تمدن، رسم و رواج ، معاشیات سمیت وہ تمام چیزیں سکھانے اور سمجھانے کا ذمے دار ہے جو ایک انسان کی ضرورت ہوتی ہیں۔
فطری طور پر ایک طریقہ اس دنیا میں رائج ہے یہاں خام مال سے ہی کارآمد چیزیں تیار کی جاتی ہیں اور انسان اتنا ہی کرسکتا ہے، کیونکہ اسے تخلیق کا اختیار تو نہیں البتہ ایجاد کرسکتا ہے سو وہ انسانوں کو بھی ایجاد کرتا ہے اور یہ ایجاد کرنے والا استاد ہی ہے۔ جو استاد اچھا انسان ایجاد کرتا ہے اس کی تعریف زیادہ کی جاتی ہے ،معاشرہ اسے اپنا استاد سمجھتا ہے دیکھیں علامہ اقبال کب کے گزرے ہیں لیکن آج بھی ادب سے وابسطہ لاکھوں لوگ اسے اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں کیوں کہ اس نے اس معاشرے کو ایک اچھا انسان ایجاد کرنے کا فن سکھایا ،ایسی کئی مثالیں دنیا میں موجود ہیں۔
ایک بچہ جب کسی اسکول یا مدرسے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی مثال ایک کورے اور صاف ستھرے کاغذ کی ہوتی ہے، جس پر کوئی بھی نقطہ لگانے سے صاف نظر آتا ہے۔ اب یہ استاد کی ہی ذمے داری ہے کہ اس کاغذ پر وہ کیا بناتا ہے کس خوبصورتی سے اس کاغذ کو کارآمد بناتا ہے؟ اس پر پھول بناتا ہے، اس میں خوبصورت رنگ بھرتا ہے یااس سے کشتی تیار کرتا ہے یا اس کو فالتو کاغذ قرار دیکر کسی ردی کے ٹوکرے میں ڈال دیتا ہے ۔ والدین تو بچے کو اس کے حوالے کرتے ہیں کہ یہ استاد اس کو وہ کچھ سکھائے گا جو دور حاضر کی ضروریا ت ہیں۔
Teacher with Student
اب یہ سوچنا ایک استاد کا کام ہے کہ وہ اس کے لیے کیا تیاری کرتا ہے ،اس بچے کو کیا دیتا ہے؟ اسے تو اس بچے کو اس معاشرے کے لیے کارآمد انسان بنانا ہے، اس بچے کو معاشرے کے سامنے ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اب یہ ماڈل جتنا خوبصورت ہوگا ہنر مند کی اتنی ہی تعریف کی جائیگی ۔ یہ جو تعلیمی ادارے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ ان کے حوالے کیے گئے بچوں کو ایک خوبصورت انسان کے طور پر معاشرے کے سامنے پیش کریں ۔ لیکن افسو س کہ ان اداروں میں ڈیکوریشن کی دوڑ لگی ہوئی ہے ،بیوٹیشن کا زور ہے، فیس کا مقابلہ ہے ،اسٹیٹس کے نعرے ہیں، لکھنے پڑھنے اور یاد کرنے کی مسابقت ہے، پوزیشن حاصل کرنے کے چرچے ہیں اور اس کو کاروباری طور پر کیش کرنے میںایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششیں جاری ہیں ۔اگر کوئی مقابلہ نہیں ہے تو وہ انسان کو انسان بنانے کا نہیں ہے۔
جس طرح انسان کے پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اسے استاد کے منصب سے نوازا گیا اسی طرح اس کا فطری طور پر رشتوں سے تعلق بنا۔ کہیں یہ رشتے حقیقی ہیں کہیں مجازی ہیں، کہیں یہ خونی ہیں تو کہیں روحانی، کہیں اخلاقی ہیں تو کہیں معاشرتی، کہیں سیاسی ہیں تو کہیں معاشی ان سب کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ لیکن یہ جو استاد کا روحانی رشتہ ہے یہ نفسیاتی طور پر سب پر بھاری ہوتا ہے ،کیونکہ یہ رشتہ والدین سے بھی زیادہ قدر اور احترام مانگتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انسان یہ کرنے پر مجبور ہے۔اسی لیے اسلام میں اس رشتے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور والدین کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ مذہبی رہنمائوں سے عقیدت اور محبت کا جو فطری مظاہرہ معاشرے میں ہوتا ہے اس میں بھی یہی پہلو موجود ہے کہ اس سے روح کو تسکین ملتی ہے۔
انسان جتنا بھی اداس ہواپنے رب کے حضورپیش ہوکر سکون تلاش کرلیتا ہے اور یہ طریقہ مذہب اور استاد سکھاتا ہے ۔ یہی استاد ہی تو ہے جو انسان کو بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے ،جو انسان کو علم سے آشنا کرتا ہے، جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، اسی استاد نے اس معاشرے کو استاد بنا کر دیے، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا ہنر ، حلال و حرام میں تمیز، سلیقہ شعاری ،سوچنے کی صلاحیت، تعمیر کا فن، تصویر کشی، خیالات کے دھارے، تعریف اور اعتراض کا پیرایا،بڑوں کا ادب ،چھوٹوں پر شفقت سمجھاتا ہے،کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔
Happy Teacher’s Day
زندگی کا مقصد، خوشیوں سے کھیلنا ،دکھوں کا مقابلہ کرنا، حق کی آواز بلند کرنے کا سلیقہ، باطل سے نبر د آزما ہونے کا حوصلہ، دوست سے وفا کرنے اور دشمن سے لڑنے کا شعور، جیت سے ہمکنار ہونا، ہار پر آنسو روکنا، لفظوں سے کھیلنا اسے تیر و نشتر کی طرح استعمال کرنا یا پھولوں کی سیج بنانا سکھاتا ہے۔ گویا استاد لوہے کو کندن بناتا ہے ۔ایسے میں کوئی استاد کا احترام نہیں کرتا تو یہ اس کی بدبختی ہو گی۔ سلام ٹیچر۔ سلام میرے استاد محترم