تحریر: نعمان وڈیره آج 5 اکتوبر کو دنیا بھر میں اساتذہ سے اظہار یکجہتی کے لیے عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن منانا 1994ء سے شروع ہوا اس دن کے منانے کا مقصد آنے والی نسلوں کو اساتذه کی اہمیت سے مانوس کروانا ہے ہے،یونیسکو کے مطابق یہ دن اساتذه کے اہم ، بنیادی اورکلیدی کردار کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے،یونیسکو کے ہی مطابق پاکستان میں شرح خواندگی بہتر بنانے کیلئے حکومتی کاوشیں قابل ستائش ہیں مگر اساتذہ کی کمی پر قابو پائے بغیر مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن نہیں۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ امن و امان اور معاشی ابتری سمیت تمام ملکی مسائل کا حل نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں ہے۔ یہ اہداف اسی صورت حاصل ہو سکتے ہیں جب استاد کو تعلیمی اداروں میں مناسب ماحول فراہم کیا جائے۔
اس دن استاد کی تعلیم کے حوالے سے خدمات پر دنیا کے مختلف ممالک میں سیمنار، کانفرنس اور دیگر پروگرامات منعقد ہوتے ہیں،ایجوکیش انٹرنیشنل جوکہ تعلیمی ماہریں کی بین الاقوامی یونین ہے کا مطالبہ ہے کہ اس دن کو عالمی سطح پر منایا جانا چاہئے،ایجوکیشن انٹرنیشنل نامی اس تنظیم کی جانب سے استائذہ کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کے سو ممالک اس دن کی مناسبت سے پروگرام منعقد ہوتے ہیں، پاکستا ن میں بھی غیر سرکاری تنظیمیں جو تعلیم کے لئے کام کررہی ہیں اپنی مدد آپ ا س دن کو مناتی ہیں۔
Teacher
زندگی بہترین کتاب اور زمانہ بہترین استاد ہوتا ہے۔زمانے میں انسان آخری سانس تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اسی فلسفے اوراسی پس منظر کے تحت استاد وہی کہلاتاہے کہ جو شاگردوں کی شخصیت سازی میں اپنا حصہ ڈالے، ان کی فکری تشکیل اور کردار سازی میں اہم کردار سرانجام دے۔ جو استاد صرف وقت گزارنے کیلئے کلاس میں اونگھتا رہے اور رسماً لیکچر دے کر چلا جائے یا پھر اپنی انرجی کو ٹیوشنیں پڑھانے کے لئے بچا کر رکھ کر پیسے کمانے کی مشین بن جائے ، وہ صحیح معنوں میں استاد کہلانے کا حقدارنہیں۔ بنیادی طور پر استاد اور تعلیم کا شعبہ ایثار کیش پیشہ ہے، اس کے ساتھ ایک تقدس منسلک ہے۔ اس لئے اس شعبے میں صرف ان لوگوں کو آنا چاہئے جن میں بے لوث خدمت کا جذبہ اور ایثار و قربانی کی صلاحیت موجود ہو۔ جس استادنے اپنے شاگرد پر انمٹ نقوش چھوڑے،نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا، اس میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کیا اوراسے نئی منزلوں سے آشناکردیا۔اپنی پاکیزہ فکر،صالح کردار اور گہرے مطالعے سے شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کئے ، اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں کردار سرانجام دیا اوراسے معرکے سرکرنے کے قابل بنایا۔قابل،لائق اورذہین وفطین شاگردوںکی سوچ و فکراورشخصیت پرایسے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ غور وفکر کے چراغ جلاکر اپنی شخصیت کا ایکسرے کریں اور اپنے باطن میں گھس جائیں تو آپ کو اپنی شخصیت کے سنوارنے میں کئی ایسے استادوں کے چھپے ہوئے ہاتھ ملیں گے۔ اچھے طالب علم کی بہت سی عادات زندگی کے رویئے بول چال اور روز مرہ کی زبان کے الفاظ و محاورے اپنے ایسے ہی استاد سے ضرورملتے ہوں گے کہ جنہوں نے اسے نہ صرف پڑھایا بلکہ اس پر توجہ دی اور اس کی کردار سازی کی ۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ استادمعمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
اچھے افراد کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے! کیاوجہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے ویران اور کوچنگ سینٹرز آباد رہتے ہیں۔ اساتذہ کی تعلیمی ا داروں سے عدم دلچسپی اور نجی ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز پر بڑی تندہی اور انہماک سے کام کرتے ہیں توایسے میں قوم مایوسی کی شکارہے۔ نجی اداروں میںوقت کی پابندی کرتے ہیں ۔ اگر یہ سب نجی اداروں یا ان کے مالکان سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کا تقاضا ہے تو پھر سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کے تقاضے کیا ہوئے؟ماضی میں اساتذہ کی تنخواہیں کم تھیں لیکن ان کا احترام بہت زیادہ تھا اب تنخواہوں میں قدرے اضافہ ہو چکا ہے لیکن احترام میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ معاشرتی اقدار کا زوال بھی ہو سکتا ہے لیکن اس زوال کو روکنے کے لیے اساتذہ کو اپنا طرز عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ آج بھی اپنے طلبا کے آئیڈیل ہیں اوردیگرخطوں کی طرح ریاست جموں وکشمیربھی اپنی بقا اور ترقی کے لیے اساتذہ پر انحصار کرتی ہے۔ اس اعتماد کو بحال رکھنا اور مسابقت کے اس دور میں ثابت قدم رہنا اساتذہ ہی کو زیب دیتا ہے وہ ہمت ہار بیٹھیں تو پوری قوم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جائے گی ۔ہماری کوئی دردمندانہ استدعا،کوئی گذارش ،کوئی اپیل اساتذہ کو ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلا دے تو ہم اسے کلمہ خیرسمجھتے ہیں۔استادکامنصب فرائض سے غفلت، کار منصبی سے کوتاہی اور کام میں تساہل برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔دیکھنایہ ہے کہ آج استاد اور طالب علم کے مابین خلوص اور عقیدت کا رشتہ عنقا کیوں ہو چلا ہے، آج کے اساتذہ کو طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل رہی جو ان کے اساتذہ کو حاصل تھی۔
Teacher Role
ایک ایسے دور میں جبکہ طالبعلم معلم سے زیادہ ذہین اور زیادہ ذرائع رکھتا ہے، معلم کو خود کو منوانے کیلئے کچھ بڑھ کر کرنا پڑے گا ۔ معاشرہ استاد سے بہت کچھ چاہتا ہے۔اگر معاشرے کو درست کرنا ہے تو ہمیں بنیاد پریعنی استاد کے رول پر توجہ دینی ہو گی ۔ ہمارے اساتذہ کو ٹیم پلیئر اور ٹیم لیڈر کا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہونا ہو گا ۔ استاد کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ روحانی والدین کا لفظ کتابوں میں تو اچھا لگتا ہے مگر وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اب استاد کو اپنا بنیادی کردار نبھانا ہو گا ۔ اگر استاد آج خود کو رول ماڈل کے کردار میں ڈھال لیں تو طلبا خود بخود فالوور کے رول میں ڈھل جائیں گے۔کوئی قوم تب طاقتور ہوتی ہے جب وہ وقت ضرورت منتشر ہجوم نہیں بلکہ مربوط قوت کے طور پر سامنے آئے ۔ ایک قوم نا قابل شکست قوت تب بنتی ہے جب اسے اپنے کردار کا ادراک ہو ۔ہرمیدان میںکامیابی کی ضمانت کیلئے ہمارے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا،۔وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہو گا ، نہیں تو اس نظام تعلیم سے اگلے سو سال میں بھی کوئی تبدیلی، کوئی انقلاب نہیں آنے والا!
نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ…… یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ کسی المیے سے کم نہیں عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل استاد بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو لوگ تنگ اور اپنے خوابوں کے کیر ئر کو چکنا چور ہو تے دیکھ کر مجبوراً ٹیچر بن جاتے ہیں۔ جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں ،اتنے ہی منفی خصائل طالب علمو ں میں در آ تے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دے۔ ہمارے ہاں اخلاقیات پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد خود بھی موقع کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر ان کی سیرت سازی کے لئے سنا سکتے ہیں۔
اعداد وشمارکے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ استاد تعلیم کی روشن شمع سے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیور تعلیم روشناس کروا رہے ہیں جبکہ اس کے باوجود مجموعی طور پردیکھا جائے تو اساتذہ کی شدید کمی ہے اقوام متحدہ نے 1994سے اساتذہ کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں یہ دن5 اکتوبر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کی دیکھ بھال ااور ان کو مناسب سہولیات اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے حکومتی ادارے اپناکردار ادا کریں اور ایسے قوانین مرتب کیے جائیں جس سے اساتذہ کی فلاح وبہبود میں کسی قسم کی کمی باقی نہ رہے صرف دن منانے سے اساتذہ کو وہ مقام نہیں دیا جا سکتا جس کے وہ روادار ہیں عملی طور پر بہت سے اقدامات کرنے سے ہی اساتذہ کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔