تحریر: سجاد علی شاکر اساتذہ اکرام سے یہ جملے اکثر سننے میں آتے ہیں کہ بچے ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں،بچے پاک وطن کا روشن مستقبل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے مستقبل کے معمار ہیں اْنہوں نے ہی کل کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے،20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایاجاتا ہے یوں تواس دن کو منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں ان بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّل ترجیح ہے بچوں کے عالمی دن منانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ان کی تعلیم صحت تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیاجائے
تاکہ ملک بھر کے بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں اورآج پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔اس موقع پربچوں کی فلاح و بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف اس سلسلہ میں بھرپور کردارادا کرتاآیا ہے۔اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کے لئے نت نئے منصوبے بنائے جاتے ہیں بچوں میں تحائف تقسیم کئے جاتے ہیں ان کی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں اس دن کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز’ واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
غر ض یہ کہ ان کے روشن مستقبل کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام ہورہا ہے یا یہ سلسلہ صرف تقریروں تک ہی محدود رہتا ہے؟کیا ہم بچوں کو ان کی صحت اور تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں ؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں اوراس وقت تک لیتے رہیں گے جب تک ان کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں، ترقی یافتہ ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا جاتا کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہم سب پر قرض ہے جو ہمیں دینا ہو گا ہمیں یہ ”دن” منا کر خاموش نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ عملی سطح پر ان بچوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل کیلئے کام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،ہمیں ان بچوںکے تمام بنیادی حقوق مہیا کرنے ہوں گے جن سے وہ محروم ہیں۔
Oppressed children
کیا ہم اور آپ اس قیمتی سرمائے کی قدر وقیمت سے واقف ہیں اور ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے ہیں؟ گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور مظلوم بچوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ سڑکوں پرگاڑی صاف کرنے، کوڑا کرکٹ اٹھانے والے اور بھیک مانگنے والے بچو ں کی پڑھائی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ہر کوئی ان کو دیکھتا ہے اور حسب توفیق بھیک دے کر،گاڑی صاف کروا کر آگے بڑھ جاتا ہے،یا ان کو دھتکار دیتا ہے گویا ان بچوں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اپنی طرف بچوں کی بہتری کے لئے کام کررہی ہے یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں بچوں کے لئے صحت کے مراکز بھی قائم ہیں کیا ان پرعملدرآمد ہورہا ہے ؟کسی بھی نظام کو درست کرنافرد واحد کا کام نہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بچوں کے امور کے لئے وفاقی اور صوبائی تربیت کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر علیحدہ وزارتیں اور ڈویڑن بنانی چاہیئں جہاں ان کی بہتری کے لئے عملی قدم اْٹھایا جائے ان کی فریاد سنی جائے ان کو در پیش مسائل کے لئے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے ان کی راہ میں آنے والی مشکلات کو دور کیا جائے اوران کی داد رسی کی جائے۔کہتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل کہلاتے ہیں اور ہر قوم اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے اپنے بچوں کی بہترین دیکھ بھال اور اچھی تعلیم کا بندوبست کرتی ہے۔
مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جہاں سب اپنے حال سے مایوس نظر آتے ہیں وہاں اچھے مستقبل کی بھی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی کیونکہ مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اس قوم کے بچوں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہیبچوں کے عالمی دن کواقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کے حقوق انسانی کی حمایت کے باعث ان بین الاقوامی تحریک کو تقویت ملی
United Nations
۔1989 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے منظور شدہ حقوق کا اعلان کیا 20 نومبر 1990 کو دنیا کے تقریباً 186ممالک نے بچوں کے عالمی دن کی منظور شدہ حقوق کے مطابق باضابطہ حمایت کرکے اسے قانونی شکل دیدی اور ایک قرارداد کے تحت ہر سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن قرار دیا۔تاریخی حقائق کے مطابق 1950ء کے عشرے میں بچوں کے بارے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ترقی پذیر ممالک کے بچے صحت، تعلیم اور تفریحی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے بچے غیر معیاری کتابوں اور رسالوں کے ذریعے ذہنی آسودگی حاصل کرتے تھے۔
بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منانے کیلئے اقوام متحدہ بچوں سے متعلق ادارہ یونیسیف ایک خاص عنوان تجویز کرتا ہے جس کا تعلق بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشوونما سے ہوتا ہے۔دنیا بھر کے ممالک اقوام متحدہ بچوں کے تجویز کردہ عنوان کی روشنی میں پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں جبکہ بچوں کا عالمی دن بھی بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں مثال کے طورپر اگر چائلڈ لیبر کے عنوان پروگرام دیا گیا ہے تو بچوں سے مشقت لینے کے بارے اخبارات، ریڈیو،ٹیلی ویڑن مباحثوں،مذاکروں کے ذریعے جس کا مقصد بچوں اور بڑوں میں اس برائی کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔