تحریر : وقار احمد اعوان شنید ہے کہ صوبائی حکومت روا ںماہ کے آخر میں NTS پر بھرتی ہونے والے تمام اساتذہ کو مستقل کردے گی، اس کے علاوہ صوبائی حکومت اساتذہ کادیرینہ مسئلہ ٹائم سکیل کا بھی بھرپورارادہ رکھتی ہے ،تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ اب تک صرف خبروں تک ہی اساتذہ کو محدودرکھاگیاہے۔حالانکہ صوبائی حکومت کی جانب سے صوبہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بھرتی موجودہ دور حکومت میں کی گئی ہے جوکہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی ،مگر انہی اساتذہ کو گزشتہ تین سالوں سے عارضی بنیادوں پر بھرتی کرکے انہیں شدید قسم کے ذہنی تنائو میں مبتلا کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت کی موجودہ این ٹی ایس پالیسی یقینا میرٹ کے عین مطابق ہے تاہم این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو جس ذہنی کوفت کاسامنا کرناپڑا شاید ہی اتنا دیگر حکومتوں میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کو بھگتنا پڑاہو۔این ٹی ایس کی معمولی سی رقم یقینا ماضی کی لاکھوںمیں لی جانے والی رقم سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔مگر اس بات میںبھی کوئی شک نہیں کہ این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ اپنے پہلے دن سے ہی مسائل کا شکا رنظرآئے۔جیسے ان بے چاروںکوتنخواہ کی ادائیگی تب کی جاتی ہے جب ان کا محکمہ تعلیم کے ساتھ ایک سال کا کنٹریکٹ پوراہونے کو ہوتا ہے، ایسے میں ایک طر ف بے چارہ استاد خوشی کے مارے نڈھا ل تو دوسری جانب پریشان نظرآتا ہے کیونکہ اگلے ہی ماہ سے ان بے چاروںکی تنخواہیں کنٹریکٹ پوراہونے کی وجہ سے بند کردی جاتی ہے۔
یوں ساراسارادن سکول میں اپنے فرائض سرانجام دینا والا استاد جب سکو ل کے بعد دفتروںکے چکر کاٹتا ہے تب کلرک صاحبان دفتر سے رخصت ہوچکے تھے،یوں مذکورہ استاد کو ایک بار پھرسے چارسے پانچ تک تنخواہوںکی بندش کا سامنا رہتاہے ،او رایسا گزشتہ تین سالوں سے جاری ہے۔بہرحال صوبائی حکومت نے جاتے جاتے ان بے چاروںکو مستقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لئے ٹیوٹا کے چیئرمین صاحبزادہ سعید کی سربراہی میںایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔جس نے سفارشات مرتب کرکے قریباً40ہزاراساتذہ کو مستقل کرنے کا باقاعدہ ڈرافت تیارکرلیا ہے۔جسے رواں ماہ کے آخر میں صوبائی اسمبلی سے منظورکرلیا جائے گا جس سے مذکورہ اساتذہ کے مسائل قریباً حل ہو جائیں گے۔اس سے ایک طرف ان بے چاروںکے سروںپر لٹکتی ہوئی کنٹریکٹ کی تلوارکا خطرہ ٹل جائے گا تو دوسری جانب انہیں محکمہ تعلیم میں کلرک صاحبان سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔کیونکہ مذکورہ اساتذہ کے مطابق انہیں زیادہ پریشانی محکمہ تعلیم کے کلرک صاحبان کی بدولت اٹھانی پڑتی ہے۔
دفاتر میں کام کی انتہائی سست رفتا ر سے مذکورہ اساتذہ گزشتہ تین سالوںسے تنخواہوںکی بندش کا سامنا کرناپڑتاہے۔جسے جلد صوبائی حکومت مستقل کرکے حل کرنا چاہتی ہے۔چلیں دیر آست درآست کے مصداق صوبائی حکومت نے اساتذہ کو ان کا جائز حق دینے کا فیصلہ بھی کرلیاہے۔حالانکہ گزشتہ ماہ اخباری خبروں میں صوبائی حکومت کو سول سرونٹ ایکٹ بارے بڑی حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جس میں اساتذہ کو سول سرونٹ کی بجائے پبلک سرونٹ قراردیا جانے کا قومی امکان تھا۔تاہم صوبائی حکومت نے حالات کی نزاکت کو مدنظررکھتے ہوئے بروقت فیصلہ واپس لیا جس سے صوبہ بھرکے اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی قدرے کم ہوئی۔حالانکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ابھی تک واضح الفاظ میں ایکٹ کے ختم ہونے کی خبر سننے کو نہیںملی ۔تاہم اس پر فی الحال خاموشی ضرور اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس بارے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پارٹی سربراہ عمران خان سے باضابطہ ملاقات کے دوران ایکٹ پر تفصیلی بریفنگ بھی دی تھی جس پر خان صاحب نے فی الحال اساتذہ سے پنگا نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔بعدازاں وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے جلدازجلد ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ،جس نے ایک ہفتہ کے دوران اساتذہ کے لئے باقاعدہ ڈرافٹ تیارکرلیا جسے رواں ماہ صوبائی اسمبلی سے منظور کرلیا جائے گا۔یاد رہے کہ ڈرافٹ میں 40ہزار اساتذہ کی مستقلی،سکول بیسڈ پالیسی ،ٹائم سکیل وغیرہ شامل ہیں۔جوکہ صوبہ بھر کے اساتذہ کا دیرینہ مطالبہ رہاہے۔حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی بھی حکومت نے اساتذہ کے مطالبات ماننے کی بجائے محکمہ تعلیم میںاصلاحات کے نام پر کھلواڑکیا ہو۔جیسے موجودہ صوبائی حکومت نے تبدیلی کے نام محکمہ تعلیم کو ایک تجربہ کے سوا کچھ نہیں سمجھا ،بنایا۔جس کی وجہ سے محکمہ تعلیم ،اساتذہ کرام اور خاص طورسے قوم کے نونہال ایک عجیب کشمکش سے دوچارہوئے۔صوبائی حکومت نے اپنے دورہ حکومت میںپہلے ”تعلیم سب کے لئے” کا نعرہ لگایا جسے بعدازاں عملی جامہ پہنانے کے لئے صوبہ گیر بھرپور مہم بھی چلائی گئی ،تاہم صوبائی حکومت اپنے مذکورہ اقدامات کی بدولت بھی صوبہ میں شرح خواندگی کی عالمی سطح کو پہنچنے سے یکسر قاصر نظر آئی۔
اس کے بعد صوبائی حکومت نے اپنے دوسرے نعرہ”پڑھے گا پختونخوا ،بڑھے گا پختونخوا ”کا بھر پور آغازکیا،اسی کے ساتھ ”یکساں نظام تعلیم ”جیسے اقدامات بھی شروع کئے گئے ،تاہم گراس روٹ لیول پر غربت کے خاتمہ کے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات کی عدم موجودگی نے صوبائی حکومت کو مشکلات سے دوچار کیا ۔جس سے اب تک صوبائی حکومت صر ف اخباری خبروں اور اشتہارات تک تبدیلی دکھانے اور ثابت کرنے میں مصروف نظرآتی ہے۔بہرحال جاتے جاتے صوبائی حکومت اگراپنے تبدیلی کے نعرہ کو عملی جامہ پہناناچاہتی ہے تو اسے ضروربالضرور اساتذہ کے دیرینہ مطالبات کوتسلیم کرناہوگا۔دریں اثناء عام انتخابات میں چند ہی ماہ باقی ہیں۔کہ جس میں پاکستان تحریک انصاف کے خواب چکناچور ہوجانے کا اندیشہ ہے،اس لئے وقت سے پہلے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔