ملک کے سیاسی حلقوں اور میڈیا میں صدارتی نظام کے بارے اظہار خیال کیا جا رہا ہے یہ نظام دنیا بہت سارے ممالک میں کامیابی سے جاری ہے پاکستان میں اس وقت پارلیمانی نظامچل رہا ہے جبکہ ماضی میں ہمارے ہاں صدارتی نظام بھی رائج رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جاری پارلیمانی نظام کی موجودگی میں صدارتی نظام کی بحث کیوں جاری ہے تو اس کی کئی ایک وجوہات موجود ہیں لیکن فی الوقت سب سے بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ملک میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف اپنے پہلے سال میں کوئی کارگردگی نہیں دکھا سکی اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس آزادانہ طور سے حکومت چلانے اور قانون سازی کے لیے اراکین اسمبلی کی تعداد کم ہے حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کے تعاون کی مرہون منت ہے اتحادی جماعتوں کا اپنا سیاسی ایجنڈہ اور منشور ہے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
جبکہ پی ٹی آئی اپنی ایک سال کی کارکردگی میں عوام کو کوئی ریلیف دینے ،اپنے وعدوں اور نعروں کیمطابق کچھ ڈیلیور کرنے میں ناکام نظر آتی ہے خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت مہنگائی کم کرنے کی بجائے مہنگائی کا طوفان بدتمیزی روکنے کیساتھ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب کرنے میں بھی بے بس نظر آتی ہے اس کی بڑی وجہ ملک میں جاری پارلیمانی سسٹم ہے جو لوٹ مار اور کرپشن کرنے والوں کیخلاف روکاٹیں کھڑی کرتا ہے۔وزیراعظم عمران خان کی ایک کمزوری سامنے آرہی ہے کہ وہ حکومت چلانے کے لیے اتحادی جماعتوں کیساتھ تعاون کرنے کیساتھ کابینہ اور حکومت میں غیرمنتخب اور الیکشن میں شکست خوردہ لوگوں کو ساتھ رکھنے میں مجبور نظر آتے ہیں کابینہ میں منتخب لوگوں کی موجودگی میں غیر منتخب اور الیکشن میں شکست خوردہ لوگوں کوحلف اٹھائے بغیر رکھنا نامناسب نظر آتا ہے عمران خان کی کابینہ میں پیپلز پارٹی دور کے شاہ محمود قریشی،ندیم افضل چن،ڈاکٹر فردوس عاشق،اعظم سواتی،فہمیدہ مرزا،مولانانور الحق،مخدوم خسرو بختیار، عثمان ڈار سمیت کئی دیگر لوگ بھی شامل ہیںجو نہ صرف دوسری پارٹیوں سے آئے ہیں بلکہ وفاقی کابینہ میں حلف اٹھائے بغیر ایسے لوگ بھی مختلف سیٹوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جنھیں عوام نے الیکشن میںمسترد کردیا تھا۔
عمران خان کو اپنی کابینہ کے ارکان نامزد کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ زیادہ بہترہے کہ وہ اپنی ٹیم میں سفارشی کھلاڑیوں کی بجائے منتحب کھلاڑی شامل کریں اس طرح ان کی کابینہ زیادہ پراعتماد ہونے کیساتھ جماعت بھی ز یادہ مضبوط ہوسکتی تھی اس وقت حکومت میں مختلف الخیال ذہن رکھنے والے اور غیرمنتخب لوگ زیادہ نظر آتے ہیںوزیراعظم عمران خان ایک طرف کارگردگی نہ دکھانے پر وزراء سے وزارتوں کے قلمدان واپس لے کر کابینہ میں رد و بدل کرتے ہیں تودوسری طرف پیپلز پارٹی دور کے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سونپ دی جاتی ہے جس کے بارے وزیراعظم اور ان کی پارٹی کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی معشیت تباہ کرنے کیساتھ قومی وسائل میں لوٹ مار اور کرپشن کی ہے ان حقیقتوں کے علاوہ ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان موجودہ پارلیمانی نظام میں اپنے ویژن، وعدوں اورنعروں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں صدارتی نظام کی بحث چھڑی ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وزیراعظم سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ پارلیمانی نظام میں کئی خامیاں اور کمزوریاں ہیں جن کے ہوتے ہوئے ماضی میں قومی خزانے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والے طاقتور لوگوں کا احتساب اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
اس کے لیے صدارتی نظام کارگر ہے جس میں صدر ملک کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے اور اس کے پاس اختیارات کی طاقت ہوتی ہے صدارتی نظام میں اراکین اسمبلی قانون سازی کا کام کرتے ہیں اس وقت امریکہ،روس،ایران،ترکی،ملائشیا اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کے تقریبا 100 ممالک میں صدارتی نظام کامیابی کیساتھ چل رہا ہے اب موجودہ حالات میں پاکستان کے اندر بھی صدارتی نظام کے بارے بحث زور و شور سے جاری ہے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں جاری پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے صدارتی نظام کس طریقے سے لایا جائے گا اس کے لیے برسراقتدار پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین کوئی نہ کوئی راستہ نکال سکتے ہیں ایک عام طریقہ کار یہ بھی ہے وزیراعظم اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں اور اگلی کاروائیاں اپنی جماعت کے صدر مملکت کے آرڈیننس کے ذریعے کی جاسکتی ہیں بحرحال جو بھی ہونا ہے اس سال یعنی 2019ء کے دوران ہونا ہے اور قوی امکان ہے کہ جون میں قومی بجٹ پاس ہونے کے بعد تبدیلی حکومت اپنی تبدیلی کو آگے بڑھانے کے لیے بڑی تبدیلیاں لائے گی۔