تحریر : قادر خان یوسف زئی پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمان بابا فرماتے ہیں، جن کے کلام کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ” میرے محبوب تم نے میرے آنسوؤں کے بارے میں تو پوچھا ہے مگر تم نے اس کی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کیا کہ میرے دل جس میں تمھارے لیے حرفِ انکار ہے ہی نہیں اس نے اس محبت میں تگ و تاز کی کیا کیا وحشتیں سہی ہیں بس اب میرے آنسو بہنے ہی والے ہیں”۔ پشتو کے عظیم صوفی شاعر کے کلام کی یہ نوحہ آج کے حالات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم مشکلات و واقعات کا رونا تو روتے رہتے ہیں لیکن مکافات عمل کی حقیقتوں کا تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ محبت ایک ہمہ گیر جہت کا حامل صرف ایک لفظ ہی نہیں بلکہ اس میں مکمل فلسفہ پنہاں ہے۔ ہم اپنے والدین ، رشتے داروں ، بچوں ، دوستوں ، احباب عقیدے سمیت سب سے محبت کرتے ہیں ۔ ہماری محبت میں بھی نفرت اکثر شامل ہوجاتی ہے لیکن نفرت بھی اُن سے کی جاتی ہے جن سے کبھی محبت تھی۔ میں جب بھی سینکڑوں، ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کو اپنے محبوب رہنمائوں کے لئے نعرے لگاتے ، رقص میں مست ، امید ِ نو اور دنیا سے بے پرواہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔تو سوچتا ہوں کہ کیا انھیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ آنے والا وقت خوش کن ہوگا ۔ یقیناََ انہیں اس کا قوی یقین ہوتا ہے کہ آنے والا وقت ان کا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلنے لگتا ہے اور پھر پس پردہ حقائق جیسے جیسے سامنے آتے چلے آتے ہیں۔
محبت ، نفرت میں بدلنے شروع ہوجاتی ہے۔ عموماََ یہی کہا جاتا ہے کہ محبت کرنے والے اندھے ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی پُر امن زندگی بسر کرنے کیلئے اندھی محبت کی تقلید کے قائل ہوتے ہیں ۔ وہی اندھی محبت ایک ایسا اندھا قانون بن چکا ہے جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے کہ انصاف و محبت کی بے حرمتی کو وہ خود نہ دیکھ سکے۔جھوٹ ، جعل سازی ، تعصب، عصبیت ، لسانیت ، قوم پرستی محبت کے زہر بن کر معصوم انسانوں کے رگ و پے میں اُتر چکے ہیں۔خون میں نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ محبت کیلئے جگہ بھی باقی نہیں رہی ۔ آج بھی اسی اندھی تقلید میں عبداللہ کی شادی میں کوئی اور ناچ رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کس حقیقت کو کس طرح آشکار کروں ۔قلم ، قلم نہیں رہا بلکہ ازار بند ہوگیا ہے ۔ قلم لکھنے کے لئے نہیں رہا بلکہ سر کھجانے کے کام آنے لگا ہے ۔ آج کا انسان اندھی تقلید میں ڈوبا جا رہا ہے ۔ کب تک اس کھیل کو کھیلا جاتا رہے گا ۔ کب تک انسانوں کی محبت کی بولی کی قیمت لگائی جائے گی ۔ کب تک خون ارزاں کوڑیوں کے دام بکتا رہے گا۔
جو موقع مل گیا تو خضر سے یہ بات پوچھیں گے جسے ہو جستجو اپنی، وہ بے چارہ کدھر جائے
انسانی جذبات کو کسی بھی نہج پر کسی بھی طریقے سے اپنانے کے طریقے انسان شناس اچھی طرح جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھار بھول جاتے ہیں کہ ہر عمل کا ردعمل اور قدرت کا مکافات ِ عمل بھی ہوتا ہے۔اندھی تقلید کے داعی و پرچارکوں کو سمجھنا فضول ہے سمجھانا ، فضول ہے کچھ کہنا ، فضول ہے کچھ لکھنا ، کیونکہ احساسات و شعور پر اندھی محبت غالب آجاتی ہے ۔ رحمان بابا یہی تو کہتے ہیں کہ ’ اس محبت میں تگ و تاز کی کیا کیا وحشتیں سہی‘۔ لیکن اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں ۔ پروانے جل رہے ہیں ۔ شمع کا غرور بڑھتا جا رہا ہے ۔ ایک جمود ٹوٹتا ہے تو دوسرا جمود طاری ہوجاتا ہے ۔ ملت کے درمیان نفرتوں کو ختم کرنے والوں کو اس طرح دودھ میں پڑی مکھی کی طرح اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ قوم کے مستقبل ، معمار کس نہج پر جا رہے ہیں اس کا انجام کسی بھی انقلاب سے بُرا نکل سکتا ہے ۔ خدارا بے وقوف بننا چھوڑ دو ۔ کب تک منفی مقاصد کے لئے استعمال ہوتے رہو گے ۔ ہر عروج کو زوال ہے ۔ کیا اس کی مثال اب تمہارے سامنے نہیں ہے ۔ علاقے کے صفائی کے لئے ایک ڈمپنگ پوائنٹ ہوتا ہے ۔ جہاں سارا کچرا جمع کرکے شہر سے باہر سالڈ ویسٹ میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ کیوں معصوم انسانوں کو دھوکہ دے رہے ہو کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ سارا کچرا ، خوشبوئوں سے مہک اٹھے گا ۔ عوام کو دھوکے میں رک کر اقتدار کی بھوک مٹانے کیلئے کس حد تک جائو گے ۔ اتنا نہیں سمجھے کہ ایک مکافات عمل کی دھار سب کے چہروں سے نقاب اُتار دیتی ہے ۔کہاں گئے و دعویدار جو ایک امت کو تقسیم کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ متحد ہو رہے ہیں ۔ نوشتہ دیوار تو سب کے سامنے ہے لیکن بھولنے کی بیماری کیوں ؟۔ کیا ہمارے بھولنے سے وقت سب کچھ بھول جائے گا ۔ نہیں وقت بھولتا نہیں بلکہ گذرتا ہے اور گزرے وقت کو کبھی روکا نہیں جا سکتا۔
کون سی زبان ، کون سا خنجر ، کس کی آستین ، کس کا لہو پکارے گا ۔ اُن کے سامنے زبان کھولی جائے جنھوں نے انسانوں سے محبت کے نام پر خون کی ہولی کھیلی ۔ ان کے خنجر کو روکا جائے جنہوں نے مذہب و مسلک و قومیت ، وطینت کے نام پر یقین کی گردنوں پر خنجر چلا ئے۔ جھوٹی آس کے سہارے دے کر خونی شطرنج کی ہر بار نئی بازی لگا ئی ۔ جھوٹے وعدے کرتے ہو۔، جھوٹی امیدیں دلاتے ہو، قاتلوں کو سینے سے لگا کر سر پر بیٹھاتے ہو اور محبت کے نئے معنی مسلط کرتے ہو ۔ کیوں اُن سسکتے لمحوں کو بھول جائوں جب بے گور وکفن پڑی لاشیں اپنے لئے دوگز زمین کا ٹکڑا مانگ رہی تھیں ۔ سانپ کی فطرت کبھی نہیں بدلتی ۔مثال ایسی ہی ہے کہ ایک شخص جنگل سے گذر رہا تھا ، اس نے ایک سانپ کو پھنسے ہوئے دیکھا ۔سانپ نے اُس سے مدد کی ۔ اُس شخص نے لکڑی کی مدد سے اُس سانپ کو وہاں سے نکالا ، سانپ نے باہر آتے ہی کھینچلی بدلی اور کہا کہ اب میں تمہیں ڈسوں گا ۔ تو دراصل آمرانہ کھینچلی ہے۔سانپ کی فطرت ڈسنا ہے سو وہ ڈسے گا۔ بس اپنی محبت میں خیال رکھنا کہ آمرانہ کھینچلی والے کب محبت کی کونسی نئی کھال پہن کر پھر کب قوم پر ٹوٹ پڑیں گے ۔خود کو جنگل میں پھنسے اُس سانپ کو نکالنے کے بجائے اپنی حفاظت کیلئے سنبھال کر رکھو کیونکہ وقت قریب میں کئی سانپ پھر ڈسنے کے لئے قوم کو ڈسنے آچکے ہیں۔ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے۔
سمجھنا چاہیں تو یہ سمجھیں کہ چنگیز خان کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں کے اسلحہ خانوں کو نشانہ بناتا تھا ۔ جب میدان جنگ میں آمنا سامنا ہوتا تو وہ حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹتے ہوئے پلٹ کر ایسا کاری وار کرتا کہ فریق مخالف کے لئے جواب دینا ناممکن ہوجاتا ۔چنگیز خان کی جانب سے اسلحہ ڈپو کو نقصان پہنچنے کے سبب فریق مخالف کے پاس دوبارہ وار کرنے کیلئے ہتھیار نہیں ہوتے اور بُری طرح شکست کا شکار ہوجاتے۔ آج کل یہ طریق کار قدرے فرق کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔
اپنے قرب و جوار پر نظر رکھیں بغور جائزہ لیں کہ آپ کے اور ہمارے اطراف یہ سب کیا اور کیوں ہورہا ہے ۔ جہاں ہم سوچنا چھوڑ دیتے ہیں ۔وہاں جمود ہمارے احساس کو مار دیتا ہے ۔ لیکن اس بات پر یقین رکھیں کہ مکافات عمل کا ایسا قانون ہے جس سے ہر کس و ناکس کو گذرنا ضرور ہے ۔ کسی شخص یا ملک کی بربادی پر خوشی یا جشن منانا قانون مکافات عمل کو جھٹلا نہیں سکتا کہ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس وقت کی سب اہم ترین ضرورت یہی ہے کہ ہم اُن اقدار کو سمجھیں جن سے حضرت انسان نے رو گردانی کی اور رب کائنات نے طاقت ور ترین قوموں کو برباد کردیا ۔ اس کی مثالیں انسانوں کو سمجھانے کے لئے چھوڑ دیں ہیں ۔ آج بھی ہمارے سامنے عجائب بن کر ہمیں قدرت کے مکافات عمل کو سمجھا رہی ہیں کہ مجھے سے میرے آنسو کے بارے میں پوچھ کہ یہ کیوں بہہ رہے ہیں ۔؟