تحریر : عارف رمضان جتوئی ٓآنسو کی قیمت کو بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ آنسو انسان کی آنکھوں سے دو ہی موقعوں پر نکلتے ہیں۔ ایک جب اسے تکلیف پہنچتی ہے دوسرا جب خوشی ہوتی ہے اور یہ دونوں مواقعے وہ ہیں جن کو بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں انہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ تکلیف جو خاموشی سے آنکھوں میں آنسو لے آئے شاید اس موت سے کہیں زیادہ بھاری ہوتی ہے جو چلاتے ہوئے انسان کو آتی ہے۔ اسی طرح خوشی کے آنسو بھی خوشی کا پیمانہ نہیں ناپ سکتے کیوں کہ خوشی کا منبع دل ہوتا ہے اور یہ خوشی دل سے ہوتی ہوئی جب آنکھوں تک پہنچتی ہے تو اس کے پیچھے ناجانے کتنے احساسات پوشیدہ ہوتے ہیں جن کو بیان کرنا محال ہوتا ہے۔ تیسرے آنسو اللہ کے خوف کے آنسو ہیں۔ یہ آنسو حقیقت میں بہت اہم ہوتے ہیں۔
اس آنسو کا تعلق نہ تو خوشی سے ہے اور نہ ہی تکلیف سے بس ایک احساس ہے جسے احساس ندامت کہا جاتا ہے۔ اس آنسو کی قدر شاید ہی کوئی جان پائے مگر درحقیقت انسان کی پوری زندگی اسی ایک آنسو کے پیچھے پہناں ہے۔ انسان کی زندگی صرف نیکی اور برائی پر گامزن ہے۔ اگر نیکی کرے گا تو وہ اپنی زندگی کا حاصل پا لے گا اور اگر برائی میں پڑے گا تو وہ اپنے حاصل سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ دنیا میں آنے کا مقصد نیکی کے کام کرنا ہیں اور یہیں انسان کا حاصل ہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے غلطی انسان کی سرشت میں شامل کردی گئی ہے۔ انسان نیکی کی جانب کم اور برائی کی جانب زیادہ مائل ہوتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ انسان ہر پل ہی گناہوں میں ہوتا ہے۔ اگروہ کچھ اچھا نہیں کر رہا اور فارغ بھی بیٹھا ہے تو بھی وہ نافرمانی کررہا ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے شمار نعمتیں دیں اور وقت دیا مگر وہ اس کو ضائع کر کے اس کا حق ادا نہیں کرتا تو غلط کرتا ہے۔ بولنے، سننے، دیکھنے، چلنے الغرض ہر ہر حرکت میں وہ غلطی کر جاتا ہے۔ ہر لمحہ برائی کی جانب بڑھتا ہے۔ اچھائی کم مگر گناہ زیادہ سے زیادہ کرتا چلا جاتا ہے ایسے میں ایک ہی چیز اس کے کام آتی ہے اور وہ ہیں بھیگے نیناں۔ خوف خدا میں نکلنے والے آنسو اس کے تمام تر گناہوں کو دھو کر اسے پاک صاف کردیتے ہیں۔
مالک کو منانا کتنا آسان کام ہے۔ رات کی تاریکی، تنہائی کا عالم، اکیلا گناہگار اور معاف کرنے والا مالک ۔۔۔۔ ساتھ میں بھیگے نین، جھکی نظریں، اٹھے ہاتھ اور امید کی کرنیں جیسے ہی دل نے گواہی دی معافی قبول ہوگئی۔ گناہوں کے ڈھیر سر پے لادے کھڑا مجرم ایک پل میں نیکیوں کے ڈھیر لیے پاک دامن ہوگیا۔ یہ تنہائی بھی کیا عجیب چیز ہے۔ میسر تقریبا سب کو ہوتی ہے مگر فرق صرف اس تنہائی کے استعمال کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس کی تنہائیاں اور تاریکیاں اچھی ہوجائیں وہ اچھوں میں شامل جاتا ہے۔ کیا یہ کوئی کم بات ہے کہ تاریکی اور تنہائی ہو اور کوئی اس کا فائدہ اٹھا کر غلط کام کرنے کے بجائے اپنے رب کے حضور اپنی غلطیوں کا باکس کھول کر بیٹھا ہو۔ دل میں ندامت اور لبوں پر الفاظ ہوں (اللہم مغفرلی) اے اللہ معاف کردے۔۔ پھر منظر پلٹے اور حکم ہو کہ اس بندے کے گناہوں کو اگرچے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف کر کے نیکیوں میں بدل دیا جائے۔
کچھ پل کو اگر آپ ایسے کسی منظر کو سوچیں تو آپ کو سکون ملنے لگے جب کوئی اس مقام پر ہو اسے کتنا سکون، راحت محسوس ہوگی۔ ایک رات آپ اپنے رب کے سامنے اکیلے میں ملیں تو اس سکون سے آپ کو بھی آشنائی ہوجائے گی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ کئی غیر ضروری حرکتیں بھی کرجاتا ہے۔ سیر وتفریح اور نشے سے بھی دل بہلانے کی کوشش کرتا ہے مگر سکون اور نیند نام کی چیز اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ کبھی ایک پل کو وہ اپنے بستر سے اٹھ کر تازہ دم ہوکر ایک سچے دل سے سجدا کر کے دیکھے تو اس کو ایسا سکون ملے گا شاید ہی کبھی اس جیسا ملا ہو۔ آنسو بہاتے ہوئے جسے عرصہ بیت گیاہو۔ اس کی آنکھیں تک درد کرتی ہوں مگر ایک بار اپنے مالک کے سامنے آنسو بہا کر دیکھے تو آنکھیں تک خوبصورت ہوجاتی ہیں اور پھر انسان کو ایسی غنودگی چھاتی ہے کہ گویا کسی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور جب وہ اٹھتا ہے تو اس کی دنیا بدلی بدلی سی محسوس ہوتی ہے۔
کسی نے پوچھا کہ رات کو اٹھ کر ٹکریں مارنے سے بہتر ہے انسان غلطیاں اور گناہ ہی نہ کرے۔ بات میں دم تھا مگر انسان غلطیاں نہ کرے نا ممکنات میں سے۔ غلطی نہ کرنے والا فرشتہ اور غلطی کرنے والا انسان ہی تو انسان کہلاتا ہے۔ یہ بات اگرچے عجیب ہے کہ اپنی فطرت والا کام کرنے کے بعد انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ جب یہ بات طے ہے کہ انسان سے غلطی ہونا لازمی امر ہے تو پھر اسے معاف کرنا اور اس کا معافی طلب کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس لحاظ سے غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی پر اترانے یا ڈٹ جانے کے بجائے فورا غلطی کا الزالہ کرنا چاہیے۔ اگر اس کا تعلق کسی فرد سے ہے تو معافی مانگتے ہوئے اپنے مالک سے توبہ کرنی چاہیے۔
توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیںہوتا۔ صدق دل سے معافی مانگی جائے تو بڑے سے بڑے گناہ اور غلطی کی معافی مل جاتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ تو معاف کردیتا ہے مگر انسان معاف نہیں کرتے۔ اس کی بنیادی وجہ دل میں لگے وہ گھاﺅ ہوتے ہیں جن کا مٹنا مشکل ہوتا ہے۔ پہلے تو ایسے گھاﺅ دینے ہی نہیں چاہئیں۔ اگر دے دیے تو اس کا بہترین طریقہ انہیں حسن اخلاق سے کم کیا جاسکتا ہے۔ معافی تلافی سے اگر ممکن ہے تو انہیں ختم کیا جاسکتا ہے۔ وگرنہ اس کے لیے پھر اپنے مالک کے سامنے سربسجدہ ہوجائیں۔ وہ ہی ایک ذات ہے جو دلوں کے حال جانتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہر شخص اگر دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا سیکھ لے تو یقینا اس سے بڑھ کر کئی عمل نہیں ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی کو معاف کرنا انتہائی مشکل ہے اس لیے شاید اس کا اجر بھی عظیم ترین رکھا گیا ہے۔ جب کوئی کسی کو معاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر کے جنت میں جگہ عطا کردیتا ہے۔ سورہ نور میں ارشاد ہے۔ ”انہیں چاہیے کہ وہ درگذر کیا کریں اور معاف کر دیا کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری بخشش کردے اور (بیشک) اللہ بخشش کرنے والا مہربان ہے۔
اپنے مالک کو منانے کئی طریقے ہیں۔ وہ تمام عبادات کی جائیں جن سے گناہوں کو مٹایا جاسکتا ہے۔ اللہ کی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ اچھائی کی جائے۔ اس طرح بھی آپ اپنے گناہوں سے بخشش حاصل کرسکتے ہیں۔ ماہ رمضان اور مخصوص عبادت کے ایام کے علاوہ بھی آپ اپنے رب سے رجوع کرتے رہیں۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ ”اللہ تعالیٰ روزانہ رات کے آخری پہر اپنے بندوں کو آواز دیتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے معافی مانگے والا کہ میں اسے معاف کردوں، مجھ سے اپنی مشکلات کا حل مانگے والا کہ اس کا حل دے دوں“۔ جب رب آپ کو آوازیں دے رہا ہے تو آپ کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ مالک آپ کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے تو کیوں آپ اس مالک کو کسی مخصوص بلڈنگ، عمارت، چوٹی، ایام، مہینوں کے اتار چڑھاﺅ میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا، مدتوں سے بارش نہیں ہو رہی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کے قبول نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو وحی نازل ہوئی:” تمہارے درمیان ایک ایسا شخص ہے جو گزشتہ چالیس سالوں سے مسلسل میری نا فرمانی کر رہا ہے اور گناہوں پر مصر ہے۔ جب تک وہ باہر نہیں نکلتا بارش نہیں ہوگی“۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آواز دی کئی جو نافرمان ہے وہ باہر آ جائے۔ اس بندے نے دیکھا کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ وہ سمجھ گیا کہ وہی مطلوب ہے۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ نکلے گا تو بے حد شرمندگی ہوگی نہ نکلا تو لوگ بارش سے محروم رہیں گے۔ اس نے اپنا چہرہ چادر میں چھپا لیا، اپنے گزشتہ افعال و اعمال پر شرمندہ ہوا اور یہ دعا کی” اے میرے رب! میری توبہ قبول فرما اور مجھے معاف فرما کر آج ذلت و رسوائی سے بچالے۔ ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ بارش شروع ہو گئی۔
اللہ تو آپ کے پاس ہے مگر آپ کو دیکھنا ہے کہ آپ اپنے رب کو کیسے منا پاتے ہیں۔ اپنے گناہوں سے کیسے توبہ کر لیتے ہیں۔ اگر یہ کام کرلیا تو یقینا آپ کے دیگر معاملات بھی اللہ تعالیٰ درست کردے گا۔ یاد رکھیں ہمیشہ ایک گناہ سے دوسرے گناہ کی طرف رستے نکلتے ہیں اور ایک نیکی سے دوسری نیکیوں کی طرف راہ ہموار ہوتی ہے۔ کوئی نیکی چھوٹی اور کوئی گناہ معمولی نہ سمجھیں۔ گناہ ہو تو فورا توبہ کریں اور نیکی کی طرف بڑھیں۔ اپنے اشکوں کو سنبھال کر رکھیں یہ بہت قیمتی ہیں انہیں گرانا ہے تو اپنے رب کے سامنے گرائیں۔